ہفتہ‬‮   27   اپریل‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

باب المندب پرجنگ کے شعلے ( قسط نمبر 2)

       
مناظر: 851 | 15 Jan 2024  

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
خطے کااہم ترین ملک عمان جو ماضی میں امریکی اتحادی رہا ہے ، اس نے باقاعدہ وارننگ جاری کردی ہے کہ’’ خبردار ہماری فضائی حدود سے کوئی میزائل یا طیارہ نہ گزرنے پائے ۔‘‘ وار تھیٹر کا جائزہ بتاتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار امریکی اس میدان جنگ میں تنہا ہیں ، کوئی بھی ان کا ساتھ دینے کا الزام تک لینے کوتیار نہیں ۔امریکیوں کا دعویٰ ہے جس کا پہلی قسط میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ بحرین ان کے ساتھ ہے ، لیکن باوثوق آفیشیل ذرائع سے تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ بحرین بھی ساتھ نہیں، اس کا صرف نام لیا جارہا ہے، کمزور پوزیشن کی وجہ سے وہ امریکہ کو اس سے روک نہیں سکتا ،چند روز قبل پاکستانی آرمی چیف کو بلا کر ایوارڈ دینے کے پیچھے بھی اسی خوف سے نجات کی کوشش تھی۔
جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو دسمبر 2023ء کے اوائل میں امریکہ کی جانب سے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں سمندری قذاقوں کے خلاف محفوظ بلاک بنا کر تجارت کو محفوظ بنانےکے لئےCTF153 کے نام سےاتحاد میں شرکت کی پیشکش کی گئی، جس کا اصل مقصد مشرق وسطی میں جاری کشیدگی میں داخل ہونا تھا۔ حالات کی نزاکت اور دشمن کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے پاکستان نے اس پیشکش کو مسترد کردیا ۔بعدازاں گزشتہ ہفتے2 رکنی اعلیٰ سطح کاامریکی عسکری وفد بھی پاکستان آیا،جس نے دجال کی عطاء و فنا کی طرح یمن کے خلاف ساتھ دینے پر بے پناہ معاشی اور عسکری مراعات اور انکار کی صورت نتائج کی مقفصل منظر کشی بھی کی لیکن ریاست پاکستان نے اس وفد سے بھی معذرت کرلی،دوٹوک جواب دے دیا کہ پاکستان یمن کے خلاف کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا، گزشتہ روز اس کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا گیا ۔دوسری جانب حالات کے پیش نظر ملکی سمندری حدود کے دفاع اور پاکستان کے سمندری تجارتی راستوں کی نگرانی کے لئے پاک بحریہ کے دستوں کو بھی متحرک کردیاگیا، ہمارا ایک بحری جہاز خلیج عدن کے دھانے پر موجود جو اپنی تجارت کو سکیورٹی دے رہاہے۔ ہم اس جنگ میں امریکہ کے اتحادی یا ساتھی تو بالکل نہیں ،اپنے دفاع سے غافل بھی نہیں ۔ المیہ البتہ یہ ہے کہ دنیا خصوصاً ہمارے خطے کو ایک عالمی جنگ کا خطرہ در پیش ہے ، جس میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے ، لیکن سیاست کی آڑ میں ملک دشمنی کرنے والے عناصر یہاں بھی ڈس انفارمیشن کا محاذ کھولے کھڑے ہیں اور جھوٹ کی اپنی روایئتی تربیت کے عین مطابق انتشار پھیلانے اور اس جنگ میں پاکستان کے مفادات کے خلاف پروپیگنڈے میں دشمن کے آلہ کار کا کردار اد اکر رہے ہیں ۔ جھوٹو ں کے اس لشکر کی قیادت وہ سابق بیوروکریٹ کر رہا ہےجس نے ساری عمر بلوچستان سے گزرتے عالمی سمگلنگ روٹ پر ڈیوٹی کرتے گزاری، اب اخیر عمر میں آقا دوعالم سیدنا محمدﷺ ۖ کی ذات مبارک کے حوالہ سے جھوٹ گھڑتے اور حدیث کے نام پر جعل سازی کرتے بھی اسے حیاء نہیں آتی۔ وہ کذب بیانی کی عادت سے مجبور ہوکر ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہے اور پاکستان کو امریکی حملے میں اتحادی ثابت کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے ۔
سوال یہ ہے کہ باب المندب پر بھڑکنے والے جنگ کے شعلے مستقبل میں کیا نوعیت اختیار کرسکتے ہیں اور اس کے نتائج وعواقب کیا ہونگے ؟ سر دست یہ امر یقینی ہو چلا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن اپنے ملک کو ایک نئی دلدل میں اتارنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور جلدیا بدیر وہ یمن میں اپنی گرائونڈ فورسز اتارنے کی حماقت بھی کرنے والے ہیں ، اس کے آثار اور شواہد واضح دکھائی دے رہے ہیں ۔ بلا خوف تردید یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے، جو کہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے تو پھر لیبیا سے جبوتی اور وسط ایشیا سے عراق شام اور لبنان تک ایک وسیع میدان جنگ سجتا دکھائی دے رہا ہے۔ نقشے پر نظر دوڑائیں تو باب المندب پر یمن کے دوسری جانب جبوتی اس کے پہلو میں صومالیہ،عقب میں ایتھوپیا ، اری ٹیریااورسوڈان سےلیبیا تک کی پٹی میں ایک بات مشترک ہے کہ یہاں حکومتی کنٹرول کم اور عسکری جتھے مضبوط ہیں۔ لیبیا القاعدہ سمیت امریکہ مخالف عسکریت پسندوں کا گڑھ بنا ہواہے مختلف ناموں سے 20سے زیادہ دھڑے یہاں موجود ہیں اور ان کے پاس ہتھیاروں کی بھی کوئی کمی نہیں، عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ جبوتی کے اردگرد کا یہ وہی علاقہ ہے جو ان دنوں بحری قذاقوں کی وجہ سے خبروں میں ہے۔جبوتی کے ساحلوں پر جب امریکی بیڑے جمع ہوں گے اور یمن میں امریکی فورسز اتر آئیں گی تو اس پورے بلاک کے امریکہ واسرائیل مخالف دھڑوں کے لئے سنہری موقع نہیں ہوگا کہ وہ امریکیوں سے اپنا پرانا حساب چکتا کریں اور بد مست ہاتھی کو گرانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔(پس تحریر: اب شائد ان افریقی مجاہدین کو یمن جانے کی بھی ضرورت نہ پڑے کیونکہ امریکہ صومالیہ میں اپنی فورسز اتارنے کا فیصلہ کر چکا ہے، یہ امریکہ دستہ یمن حملے کے اگلے روز صومالیہ کے ساحل پر اغوا کئے جانےو الے دو امریکی میرینز کو تلاش کریں گے۔ جو یہاں ایک مشن پر تھے ۔ )
سمندر کے دوسری کنارے امریکیوں کا اصل ہدف یمن بظاہر تنہا ہے ، اس کے ایک جانب سعودی عرب ہے ، جو سردست امریکیوں کے ساتھ نہیں ، لیکن اس سے زیادہ کی اس سے توقع بھی نہیں رکھی جا سکتی ، دوسری جانب عمان ہے ، جس نے اپنی حدود استعمال کرنے سے امریکہ کو منع کردیا ہے ، لیکن اس سے بھی اس سے زیادہ کی توقع زیادتی ہوگی ۔اس سب کے باوجود یمن تنہا نہیں ، کم وبیش ایک دہائی سے اس کا ایران کے ساتھ تزویراتی رشتہ قائم ہو چکا ہے ، ایران کھل کر یمن کے حوثیوں کی سرپرستی کر رہا ہے،دوسرا وار تھیٹر یہاں بنتا دکھائی دے رہاہےجو ایران سےشروع ہو کر گولان کی پہاڑیوں تک جا رہا ہے۔گولان کی پہاڑیاں اسرائیل نے شام سے چھینی تھیں،شام کی سرحدیں عراق سے ملتی ہیں اور عراق ایران کا پڑوسی ہے، جس کے عقب میں افغانستان اور پہلو میں روس کے زیر اثر پورا وسط ایشیاء، موقع کی تلاش میں ہے۔ یقینی سی بات ہے کہ وسط ایشیاء، افغانستان اور ایران براہ راست از خود تو جنگ میں شریک نہیں ہوںگے ، لیکن یہ سب جنگ سے الگ بھی نہیں رہیں گے ۔ ایران سے آگے عراق ، شام اور لبنان میں اصل میدان لگنے کا امکان ہے ، جس کی سپلائی لائز روس اور افغانستان تک وسیع اور محفوظ ہوں گی ۔ شام میں امریکہ کے 10اور عراق میں 12فوجی اڈے موجود ہیں۔یمن میں ابھی امریکی فوجیں اتری نہیں ہیں ، لیکن گزشتہ اڑھائی ماہ میں شام اور عراق میں امریکی فورسز پر 113حملے ہو چکے ہیں ، جن میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں ۔ اگر باب المندب کی جنگ باقاعدہ بھڑک اٹھتی ہے تو اس وار تھیٹر میں یہاں امریکیوں کےلئے خود کو بچانا کاردارد ہوگا ۔
جو امریکی پوری دنیا کی حمائت ، وسائل اور پشت پناہی کے ساتھ افغانستان میں جان بچانے کی خاطر ذلت آمیز منت سماجت پر اتر آئے تھے ، وہ ان دو وار تھیٹر میں کب تک ٹک پائیں گے ، جب کہ عالم یہ ہے کہ یمن پر حملے شروع کئے تین دن ہو چکے ، ابھی تک امریکہ اور برطانیہ کو کسی تیسرے ملک کی حمائت حاصل نہیں ہو سکی ، یہاں تک کہ 10رکنی بحری اتحاد میں سے بھی کوئی آواز اس کی حمائت میں بلند نہیں ہوئی ، اور تو اور جن تین ممالک کو حملے کے بعد امریکی صدر نے شریک جرم قرار دیا تھا ، وہ بھی تاحال منقار زیر پر ہیں ۔ عقل کا تقاضہ تو یہ ہے کہ امریکی اس صورتحال میں زمین پر اترنے کی غلطی نہیں کریں گے ، لیکن وائٹ ہائوس پر مسلط صہیونی سائے ، اسے چین نہیں لینے دیں گے ۔( جاری ہے )

عریضہ /سیف اللہ خالد