بدھ‬‮   1   مئی‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

مسنگ پرسنز ڈاکٹرائن

       
مناظر: 997 | 26 Dec 2023  

بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کردینے کے الزامات 2006سے لگائے جا رہے تھے لیکن منظم انداز میں یہ معاملہ سب سے پہلے 2014میں اٹھایا گیا ، جب بی ایل اے کے قدیر بلوچ نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا۔دہشت گرد تنظیم لشکر بلوچستان کے سربراہ جاوید مینگل کےاسلام آباد میں بیٹھے صحافی دوست نے اس خاکے میں رنگ بھرا ، انتہائی مہارت سے مامے قدیر کے نام سے شخصیت سازی کی گئی۔یہی ’’ماما قدیر‘‘جنوری 2018میں بھارت گیا ،مودی سے ملاقات کی اور آن دی ریکارڈ بتایا کہ اس نے درخواست کی ہے کہ’’ بھارت بلوچستان میں جنگ کے لئے اسلحہ دے اور مودی نے اس کی یہ درخواست قبول کرلی ہے ۔‘‘ اس وقت سے ہر سال دسمبر میں لاپتہ افراد کے نام سے ڈرامہ بازی کی جاتی ہے۔لاپتہ افراد کی حقیقت یہ ہے کہ کم ازکم 50سے 55فیصد کیس سو فیصد جعل سازی ہے ، ان لوگوں کا وجود ہی ثابت نہیں، لاپتہ ہونا یا نہ ہونا تو بہت بعد کی بات ہے ۔بقیہ45یا 50 فیصد میں دوتہائی سے زیادہ ایسے لوگ ہیں ، جنہیں کسی ایجنسی ادارے، یا پولیس نے لا پتہ نہیں کیا ، بلکہ یہ لوگ اس وقت بھی دہشت گردی کے کیمپوں میں موجود ہیں ، اہل خانہ کے رابطے میں بھی ہیں ۔جسےدہشت گردانہ حملوں کے لئے منتخب کیا جاتاہے،اس کے اہل خانہ کو تصاویر دے کر کیمپوں میں بٹھا دیا جاتا ہے ،جو مارا جائے اس پر پروپیگنڈہ شروع ہوجاتا ہے کہ ’’زیر حراست مارا گیا‘‘۔ اس کا سب سے پہلا ثبوت خود اس لانگ مارچ کی قائد ماہ رنگ بلوچ کا باپ غفار لانگو ہے۔ بی ایل اے کا کمانڈر تھا ،اس کے لاپتہ ہونے کا پروپیگنڈہ کیا گیا لیکن وہ ایک حملے کے دوران جوابی فائرنگ سے مارا گیا۔ سیمی دین بلوچ کےباپ ڈاکٹردین محمد بلوچ کو بھی لاپتہ قرار دیا جاتا ہے۔وہ دہشت گرد تنظیم بی ایل ایف کی مرکزی قیادت کا حصہ ہے،دہشت گرد کمانڈر اللہ نذر بلوچ کاقریبی ساتھی ہے ، آج بھی اس کے ساتھ دیکھا جارہا ہے۔ دہشت گرد اسلم عرف اچھو کا بھی قریبی ساتھی رہا،اس کے ساتھ دہلی بھی گیا، آج کل بھی اس کا بھارت آنا جانا ثابت ہے ۔کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے میں مارے جانے والے چاروں دہشت گردوں کے نام لاپتہ افراد میں شامل تھے ۔ اسی حملےکےایک کردار راشد بلوچ عرف راشد بروہی کے لواحقین بھی تصویر اٹھائے پریس کلب کے باہر انصاف مانگ رہے ہیں ۔یہ حملے کے بعد فرار ہوکر متحدہ عرب امارات چلا گیا ، اماراتی انٹیلی جنس نے شارجہ سےگرفتار کیا، اب قانون کا سامنا کر رہا ہے۔ 2020کے آغاز پر شور اٹھا کہ’’ قائد اعظم یونیورسٹی کے دو طالب علم شاہ داد بلوچ اوراحسان بلوچ لاپتہ ہوگئے ہیں‘‘۔پاکستان اور سکیورٹی فورسز کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا کیا گیا ، مئی 2020میں دہشت گرد تنظیم بی ایل اے نے اعلان کیا کہ ان کے دو دہشت گرد قلات اور خاران میں فورسز سے مقابلے میں مارے جا چکے ہیں ۔ یہ دونوںاسلام آباد میں دہشت گردوں کی نرسری بی ایس او کے تحت بلوچ طلباء میں سے بھرتیوں ، مفرور دہشت گردوں کو  چھپانے اور غیر ملکی ہنڈلرز سے رابطوںکے مشن پر اسلام آباد میںتھے۔ ان کی مصروفیات اور ملاقاتوں کا ریکارڈ چیک کیا جاتا تو دہشت گردی کے سہولت کاروں کا سراغ لگانا مشکل نہیں تھا ۔ جب انہیں ایکٹو گروپ میں حملوں کے لئے بھیجا گیا تو لاپتہ ہونے کا شور مچادیا گیا ۔ بلوچ یکجہتی کونسل کی حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 2020میں مفرور دہشت گرد کریمہ بلوچ کی موت کے بعد وجود میں آئی ، کریمہ کی لاش کینیڈا میں ایک ندی کے کنارے ملی تھی،کینیڈا پولیس کے مطابق وہ نشے میں تھی،یورپی تنظیم ڈس انفو لیب نے کریمہ بلوچ کا تعلق انڈیا کے ساتھ ظاہر کیا تھا۔حالیہ لانگ مارچ کو مولا بخش بالاچ کی موت پر احتجاج سے منسلک کیا جارہا ہے ، لیکن اطلاعات موجود ہیں کہ اس کی منصوبہ بندی کئی ہفتوں سے جاری تھی ، جہاں سے فنڈنگ آئی ، رابطے ہوئے ،منصوبہ بندی کی گئی، دبئی میں بیٹھاجاوید مینگل اسلام آباد میں کس سے رابطے میں تھا ؟ وہ کردار اب کیاخدمات سرانجام دے رہا ہے ؟سب کچھ عیاں ہے ۔ جہاں تک مولا بخش بالاچ کی بات ہے تو وہ بی ایل اے کا دہشت گرد تھا ، 20نومبر کو 5 کلو بارودی مواد سمیت پکڑا گیا ،21 نومبر کو عدالت میں پیش کیا گیاہے۔ تفتیش کے دوران ایک سے دوسری جگہ لے جایا جارہا تھا ، بی ایل اے نے حملہ کر کے ہلاک کر دیا تا کہ ہ زبان نہ کھولے۔اس کےساتھ ہی پہلے سے تیار بیٹھی بلوچ یکجہتی کونسل نے احتجاج کی کال دے دی ۔ سوال یہ ہے کہ بالاچ اگر معصوم تھا تو اسے بی ایل اسے کے پرچم کا کفن کیوں دیا گیا ؟ اس کی قبر پر بی ایل اے کا جھنڈا کیوں لگایاگیا؟ بی ایل اے کے سوشل میڈیا پر اسے’’ سرمچار ‘‘ اور ہیرو کیوں قرار دیا جارہا ہے ؟ اس کے چند گھنٹے بعد ہی یورپین پارلیمنٹ کے بھارتی حمائت یافتہ رکن نے ماہ رنگ بلوچ کے مظاہروں کی حمایت میں قراردادکیسے پیش کردی؟ اسے کیسے علم تھا کہ مارچ کیا جائے گا ، جو مارچ اسلام آباد تک جائے گا ؟ لاپتہ افراد کے نام پرہنگامہ حقیقت میں اسی طرح کی سازش ہے ، جیسے 1968میں مشرقی پاکستان میں دہشت گردی کے لئے ’’ اگرتلہ ‘‘ سازش رچائی گئی تھی ۔ یہ الگ بات کہ اس وقت بھارتی دہشت گردی کا ساتھ دینے والے نام نہاددانشور ،جنہیں بھارتی آرمی چیف مانک شا’’پاکستانی میڈیا میں بھارت کے دوست‘‘ قرار دیتا ہے اور حسینہ واجد نے انہیں پاکستان توڑنے میں ساتھ دینے پر ایوارڈ دیئے، موجود تھے انہوں نےاگر تلہ سازش کو جھوٹ قرار دے کر اس پر عمل درآمد کا راستہ ہموار کیا، جبکہ بھارتی وزارت خارجہ اب بھی اسے ’’گریٹ اگر تلہ ڈاکٹرائن‘‘ قرار دیتی ہے۔ اسی کو اب’’مسنگ پرسنز ڈاکٹرائن‘‘ کے نام سےسامنے لایا گیا ہے ۔ بھارتی را کے سابق چیف بی رامن کے بقول ’’اگر تلہ ڈاکٹرائن کا مقصد پاکستان کو ہی مجرم قرار دے کر علیحدگی کا ملبہ اسی پر ڈالنے کی سازش تھی‘‘۔ اسی بی رامن کے ہمراہ ایوارڈ کے مستحق ’’بھارت کے دوست‘‘ کرداروں کے ’’وارث‘‘ آج مسنگ پرسن سازش کے روح رواں اور سہولت کار بنے ہوئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی پاکستان کو ڈسنے والےسانپو ں کے سرنہیں کچلے جائیں گے؟ پاکستانیوں کا قتل عام کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی؟سقوط ڈھاکہ کی طرح یہ خون بہاتے رہیں گے اورریاست تماشہ دیکھتی رہے گی ۔ اگر ریاست کا رویہ یہی رہا ، جو نظر آرہا ہے کہ یہی ہے تو پھر نتائج کے مختلف ہونے کی توقع بھی نہ رکھیں ۔

 

عریضہ / سیف اللہ خالد