بدھ‬‮   1   مئی‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

نقشوں کی جنگ

       
مناظر: 267 | 22 Dec 2023  

نقشہ جنگ کا ہو یا ملکی ترقی کا ، عزم واستقلال کی علامت اورہمیشہ کامیابی اور اہداف کے تقرر میں اہم کردار ادا کرتا ہے،بلکہ مستقبل کے عزائم کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ یہ نقشے ہی ہیں جو مستقبل کے ارادوں کا نقش بن جاتے ہیں یا حسین ماضی کی یادوں کا عکس ۔ جون 2004 کی بات ہے ،جنرل حمید گل ؒ نے ایک نقشہ اس نوٹ کے ساتھ بھجوایا کہ ان علاقوں پر نظر رکھو ،یہاں بدامنی اور جنگ شروع ہونے کو ہے ۔ یہ نقشہ Adam Garfinkle نے ترتیب دیا، یکم دسمبر 1999کو امریکہ کے فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنے جرنل میں شائع کیا ، اپریل 2004 میں امریکہ نے اسے G-8 سربراہی اجلاس کے لئے پیش کیا ، اور یکم جون 2004کو جارجیا میں ہونے والے جی ۔8 کے سربراہی اجلا س میں ’’گریٹر مڈل ایسٹ انی شیٹو‘‘(GMEI) کے نام سے اس کی منظوری دی گئی ، اور تکمیل کی حد 2025مقرر کی گئی ۔ مستقبل کی آنکھوں میں جھانکنے کی صلاحیت رکھنے والے اس عظیم جرنیل نے دوسال بعد جون 2006میں ایک اور نقشہ دو سطری نوٹ لکھ کر بھیجا ،اور ایک بار پھر اس نقشے میں نشان زدہ علاقوں پر نظر رکھنے کا مشورہ دیا۔یہ نقشہ امریکی سی آئی اے کے ایک ٹرینر رالف پیٹر نے Blood boredrs کے نام سے ترتیب دیا،امریکی افواج کے میگزینArmed Foeces Journal نے شائع کیا ، اس منصوبے کی حد تکمیل بھی 2025قرار دی گئی۔یہ نقشے کس قدر اہم تھے اس کا ندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج غزہ سے لیکر بلوچستان تک پورے عالم اسلام میں جہاں جہاں خون بہہ رہا ہے، انہیں نقشوں میں رنگ بھرنے کی کوشش ہے۔صرف ایک استثنیٰ ہے، بلڈبارڈر میں پاکستان کے بارے میں جس بدفال یا مکروہ شیطانی امریکی نقشے کے خدوخال بیان کئے گئے تھے،تمام تر کوششوں اور اربوں ڈالر پھونک دینے کے باجود دشمن کامیاب نہیں ہو سکا، یہاں اس کے نقشے کی لکریں بیوہ کی مانگ کی طرح اجڑی پڑی ہیں۔ ہاں البتہ پاکستان نے اپنے نقشے کا رنگ قائم رکھنے کی خاطر جو خون دیا ہے اس کی مثال بھی کوئی دوسری نہیں مل سکتی،لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ حیرانی صرف اس پرہے کہ اگر جنرل حمید گلؒ ان نقشوں کے سامنے آنےکے بعد سمجھ گئے تھے کہ مستقبل میں امریکی کہاں کہاں وار کر سکتے ہیں تو کیا پورے عالم اسلام میں کوئی ایک بھی ایسا صاحب اختیار نہ تھا جو سمجھ پاتا اور سدباب کرتا؟ان نقشوں کی روشنی میں مستقبل کی کوکھ سے کیا برآمد کرنا مقصود ہے ، اسے کسی دوسرے وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں،سر دست اتنا کافی ہے کہ غزہ کی جنگ بھی دونقشوں کی تکمیل کی جنگ ہے ، ایک گریٹر مڈل ایسٹ انی شیٹو اور دوسرا گریٹ اسرائیل ، جس کا نقشہ اس سال کے آغاز میں اسرائیلی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں لہرایا تھا۔افسوس کہ اس کی زد میں آنے والے مسلم ممالک ابھی تک مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں غزہ والوں کی چیخیں بھی انہیں جگانے میں ناکام ہیں۔خدانہ کرے کہ ایسا ہو …..لیکن شعور کی آنکھ وہ سامنے دیکھ رہی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ان کی چیخوں پر بھی کوئی کان نہیں دھرے گااوریہ کف افسوس ملتے ہوئے پکاریں گے کہ کاش ہم نے غزہ میں اس طوفان کو روکا ہوتا ۔وجہ صرف ایک ہے کہ ان کا اپنا کوئی نقشہ ہی نہیں ،کوئی خواب ہی نہیں ۔
سوال یہ ہے کہ شرق وغرب سے دشمن ہم پر ہی کیوں ٹوٹے پڑ رہے ہیں؟ وجہ صرف ایک! ہمارا جغرافیہ اور ہمارے مستقبل کے نقشے ۔ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے مستقل کے ان نقشوں کو سمجھیں ،دل ودماغ میں اتاریں تاکہ یہ سوچ اور حکمت عملی کا حصہ بن سکیں ۔یہ ہمارا مستقبل اور منزل ہے،خودمختاری،علاقائی سالمیت،قومی شناخت اور باہمی تعلق کے احساس کو جلا بخشتی دستاویزہے ۔
بھارت نے 5اگست 2019کو کشمیر میں غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور خود اس کے آئین کے تحت غیر آئینی اقدام کیا،وہ اس کا استعماری نقشہ تھا۔پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے بلا شبہ تاریخی سرد مہری اور لاتعلقی اختیارکی لیکن اگست 2020میں نئے سیاسی نقشے کی رونمائی اس بات ا اعلان تھا اور ہے کہ ہم اپنا حق اور منزل بھولے نہیں ۔پاکستان کا یہ نقشہ ماضی سے اس لئےاہم اور منفرد ہے کہ 1971 کے کمزور لمحات کے بعد کا نقشہ مجبور اور شکست خوردہ نفسیات کے تحت اختیار کی گئی محض جغرافیائی کنٹرول کی علامتی مگر نامکمل دستاویز تھی، جسے 2020میں مکمل کردیا گیا ۔ یہ ایک طرح سے کشمیریوں کے لئے بھی پیغام تھا کہ ان کے بغیر نامکمل پاکستان بھی تکمیل کی منزل جلد حاصل کرے گا۔ انشاء اللہ بلا شبہ موجودہ سیاسی نقشہ نہ صرف پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس امر کا اعلان بھی ہے کہ جبر ، مکر اور غنڈہ گردی سے چھینے گئے علاقوں کو ہم بھولے نہیں،اب بھی ہمارا دعویٰ موجود ہے ۔ اس نقشے کی خصوصیات کو دیکھا جائے تو اس میں ورکنگ باؤنڈری کی مکمل تشریح ،کشمیر پر غیر قانونی بھارتی تسلط کی نشاندہی ،اس کی متناعہ حیثیت کا اظہار ، لائن آف کنٹرول کی وضاحت ، اقوم متحدہ میں پاکستانی مقدمہ کے مطابق کشمیر اور گلگت بلتستان کی مکمل شناخت اور ان علاقوں کا ذکر بھی موجود ہے ، جو قانونی طور پر پاکستان کا حصہ ہیں اور بھارت کشمیر کی طرح ہی ان پر غاصب ہے ۔
آج کی نوجوان نسل جانتی ہی نہیں کہ جوناگڑھ اور مناور کے علاقے پاکستان کا جائز اور قانونی حصہ تھے ، جن پر بھارت نے فروری 1948 میں قبضہ کیا ۔اسی طرح معدنی وسائل سے مالا مال سر کریک کا علاقہ پاکستان کے نقشے سے نامعلوم کب اور کیوں غائب ہوگیا تھا ، اس کی درست نشاندہی کرتے ہوئے پاکستان کی سرحد کریک کے مشرقی کنارے کے ساتھ واضح کی گئی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ کہ بھارت سمجھتا تھا ، پاکستان غافل ہو چکا ، ان علاقوں پر اس کا قبضہ تسلیم کرلیا گیا ، اسے اقوام متحدہ ، شنگھائی کانفرنس سمیت ہر عالمی پلیٹ فارم پر منہ کی کھانا پڑی اور پاکستان کا یہ نقشہ بلکہ جوناگڑھ ، مناور اور سر کریک پر پاکستان کا دعویٰ تسلیم کرلیا گیا ہے ۔ یہ پاکستان کی ایسی کامیابی ہے کہ جسے نامعلوم کیوں نظر انداز کیا گیا اور اس کی مناسب تشہیر میں مجرمانہ غفلت برتی گئی ۔المیہ البتہ یہ ہے کہ اس وقت بھی پاکستان کے بعض سرکاری اداروں اور تعلیمی اداروں سمیت پورے ملک میں مکمل نقشے کو سمجھنے اور اس پر اصرار کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جا رہی، حالانکہ دنیا بھر میں غلط نقشے پر سزائوں کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔ جس طرح بھارت ، ترکی ، چین تائیوان سمیت دیگر کئی ممالک میں نقشوں کے رد وبدل پر سخت سزائیں نافذ ہیں ، قانون تو پاکستان میں بھی (ترمیمی) ایکٹ، 2020 کی صورت موجود ہے ، مگر نفاذ ہنوز سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔

عریضہ / سیف اللہ خالد