ہفتہ‬‮   27   اپریل‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

ریاست کہاں ہے ؟

       
مناظر: 614 | 5 Feb 2024  

تاریخ کا سبق ہے کہ’’ ریاست اگر سازشیوں ، دشمنوں اور غداروں کے لئے بے رحم نہیں ہوگی تو وجود کھودے گی ۔ ‘‘ خلیفہ عبدالحمید ذاتی زندگی میں متقی ، پرہیز گار ، معاملہ فہم اور عوام کی فکر رکھنے والاصاحب علم اور بہادر حکمران تھا ، لیکن بار بار سازشیوں کو معاف کردینے اور غیرضروری عفو درگزر کا نتیجہ یہ نکلا کہ تلوار کی دھار پر قائم ہونے والی یہ عظیم الشان ریاست ، اندرونی غداروں کے سبب ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی اور اپنا وجود کھوبیٹھی ،آج اسی خلافت عثمانیہ کی باقیات 57ممالک میں منقسم اور گاہے باہم دست وگریباں ہے ۔ مغل سلطنت اپنے عہد کی ایک شاندار ریاست تھی ،گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر کابل سے راسکماری تک قائم کی گئی یہ ریاست قدیم عہد میں جدید دورسے زیادہ ترقی یافتہ ، امیر ، روادار اور عوام دوست تھی ، لیکن اورنگ زیب اور اس کے بعد کے بادشاہوں کی تمام تر دین داری ، شرافت اور رعایا پروری کے باوجود غیر ملکیوں اور سازشیوں سے درگزر کے سبب نابود ہو کر رہ گئی اور بر صغیر طویل عرصے کے لئے غلامی کے ایسے اندھیرے کا شکار ہوا کہ آج بھی عوام کو اس سطح کی خوشحالی نصیب نہیں ہو سکی ۔تیسری مثال اپنے عہدکے جری جرنیل ٹیپو سلطان کی ہے ، تن تنہا انگریز افواج کو تگنی کا ناچ نچانے والا ٹیپو غداروں کے ہاتھوں مارا گیا ،کیونکہ ایک نہیں ، دو نہیں کئی بار اس نے غدارمیر صادق کو معاف کیا ، اس پر احسان کرکے جیتنا چاہا مگر بد خصلت غدار کبھی وفادار نہیں ہوسکتا،جو کام انگریز افواج نہ کر سکیں وہ ٹیپو کی رحم دلی نے کردیا اور بر صغیر کی آزادی کی آخری امید بھی ختم ہو کر رہ گئی ۔ شیروں کی سرزمین بنگال کی داستاں بھی مختلف نہیں ، سراج الدولہ بھی ایک میر کی غداری کا شکار ہو ا، اس کی بہادری ، جرات اور دلیری دھری رہ گئی ، جب اس نے میر جعفر کو باربار داری پر معاف کیا ،عہدے پر بحال رکھا ، نتیجہ غلامی کی طویل سیاہ رات کی صورت برآمد ہوااور تاریخ میں یہ رقم ہوکر رہ گیا کہ میر صادق، میر جعفر یا ان کی آل ، اولاد یا کسی بھی وارث پر جتنا مرضی احسان کرلیں ، وہ غداری کرنے اور ریاست کو ڈسنے سے باز نہیں آئے گا ۔اقبال ؒ نے اس قبیلہ کی کیا زبردست شناخت کروائی ہے ۔
جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگِ آدم، ننگِ دین، ننگِ وطن
ایک طرف تاریخ کا یہ سبق ہے اور دوسری جانب ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے غدار ، سازشی اور دشمن کے تنخواہ دار ریاست کی ڈھیل سے فائدہ اٹھا کر سروں پر چڑھتے چلے جا رہے ہیں۔مامے قدیر سے لے کر مہ رنگ اور سمی بلوچ بلکہ اسلام آباد سے کوئٹہ تک ان کے حوایوں تک کون ہے جس کی ملک دشمنی اظہرمن الشمس نہیں؟ کون ہے ؟ جو دشمن کا راتب خور نہیں ؟لیکن یہ اسلام آباد پریس کلب سے کوئٹہ سول ہسپتال تک دندناتے پھرتے ہیں ، پاکستان کی سالمیت کا مذاق اڑاتے ، افواج ، اداروں اور قوم کی توہین کرتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ مامے قدیر نے دہلی جا کر مودی سے بلوچستان میں لڑنے کے لئے اسلحہ مانگا اور وہ اسے مل بھی گیا ، کسے علم نہیں کہ مہ رنگ کا باپ غفار لانگو کون تھا ، کسے بھول ہے کہ سمی کا باپ داکٹر دین محمد کون ہے اور کہاں ہے ؟ حیرت مگر یہ اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ لوگ پاکستان کی سالمیت کو للکارتے رہے اور پاکستان کی عدالتوں سے لے کر میڈیا تک ان کا ہمنوا اور ہمدرد رہا۔ اسی دھرنے میں دن رات ریاست پاکستان پر الزام تراشی کرنے اور اداروں پر اپنے بھائ کے اغوا کا الزام لگانے والی گل زادی اور اسی طرح دیگر نامعلوم کیا کیا زادیاں ، آج کس منہ سے کوئٹہ ہسپتال کے باہر مامے قدیر کے ہمراہ بیٹھی لاشیں مانگ رہی ہیں۔ڈھٹائی اور بے شرمی کی حد ہے کہ جن کو کل گرفتار بتا کر مظلومیت کی آڑ میں ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کر رہی تھیں ، وہ مچھ میں بے گناہ بلوچوں کے قتل میں ملوث ہونے پر مارے گئے تویہ ان کی لاشیں وصول کرنے جا پہنچی ہیں ،الٹا احتجاج کر رہی ہیں۔ یہ وہی خواتین ہیں ، جو کل تک اسلام آباد میں بیٹھی عدالتوں اور میڈیا کی ہمدردیاں سمیٹ رہی تھیں ، بی ایل اے کے دہشت گردوں کو مظلوم ثابت کرنے پر تلی تھیں۔گل زادی کے بھائی عبدالودود سے لےکر سلال سمین سمیت اب تک کم ازکم 12لاپتہ دہشت گرد مچھ میں مارے جا چکے ہیں ، جن کے نام اسلام آباد میں لاپتہ کے طور پر نشر کئے جاتے رہے ہیں ۔
سوال ریاست پاکستان سے ہےکہ اتنی چھوٹ کیوں ؟اتنی نرمی کس لئے؟ مامے قدیر ، اس کے حواریوں اور دہشت گردوں کو ہیروقرار دینے والوں کی غداری ، دہشت گردی اور دشمن کا ایجنٹ ہونے میں اب کون سا شبہ باقی رہ گیا ہے ؟ کیا ثبوت درکار ہے کہ یہ خونخوار درندے ملک کے دشمن ، عوام کے قاتل ہیں ؟ انہیں اس حد تک ڈھیل کیوں دی جا رہی ہے کہ کبھی اسلام آباد ، کبھی کوئٹہ اور کبھی کسی شہر میں سڑکیں بلاک کرکے یہ ملک دشمنی کو فروغ دیں ؟ یہ کون سی رواداری ہے ؟ یہ کیسی برداشت ہے ؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ سرعام ریاست کے خلاف جنگ کی تیاریاں کرنے اور ریاست میں دہشت گردی کی ترغیب دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے ؟ان کا محاسبہ کیا جائے ۔ مچھ کی دہشت گردی نے سب پردے ہٹا دئیے ہیں ، شکوک وشبہات دور کردیئے ہیں ، دہشت گردوں کے چہروں سے نقاب الٹ دی ہے ، لاپتہ افراد کا نام نہاد ڈرامہ ختم ہو چکا ہے ، پوشیدہ حقائق آشکار ہو چکے ہیں ۔اب بھی اگر کارروائی نہ کی گئی، ان دہشت گردوں کو پاکستان کی سڑکوں پرآزادانہ طورپر دہشت گردی کی ترغیب دینے اور دہشت گردوں کو ہیرو بنانے کی اجازت دی گئی تو یہ برداشت ، یا رواداری نہیں کمزوری کی علامت ہوگی اور کمزور ریاستوں کو کوئی زندہ رہنے کا حق نہیں دیا کرتا ۔

 

عریضہ /سیف اللہ خالد