ہفتہ‬‮   27   اپریل‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی کا یوم وفات

       
مناظر: 698 | 4 Feb 2024  

تحریر – چوہدری محمد حسین طاہر

زندہ قومیں ہمیشہ اپنے راہنماؤں کے اصولوں ان کی قومی خدمات اور افکار پر فخر محسوس کرتی ہیں اور ان پر عمل پیرا ہو کر اپنے قدم آگے بڑھاتی ہیں اور انہی کے فلسفے کی بنیاد بنا کر نظریات کے نئے چراغ روشن کرتی ہیں۔ پاکستان کے حصول کی جدو جہد کے دوران کئی مسلمان قائدین نے اپنی اپنی بصارت ہمت اور فکر و دانش کے لحاظ سے شاندار کارنامے سرانجام دیئے۔ کسی نے مال و دولت لٹا کر کاروان ملت کو نئی تاب و تواں بخشی۔ کسی نے اپنے اثر و رسوخ سے مقاصد ملی کو تقویت پہنچائی۔ کسی نے اپنے ذہن وشعور سے ملت اسلامیہ کو تازگی دی۔ یہ سب لوگ سراپا ایثار تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں جو اصول اور نظریات وضع کئے اور جو کارنامے سر انجام دیئے وہ سب ہماری قومی متاع کا حصہ ہیں۔ اس جد و جہد آزادی میں جہاں قائد اعظم محمدعلی جناح نے مسلمانوں کی کشتی کو منزل مراد پر پہنچایا، ان کی فہم وفراست اور تدبر نے اس تحریک آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ غلامی کا ایک تاریک اور طویل دور ختم ہوا برصغیر کے مسلمان ایک الگ اور خود مختار ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جد و جہد آزادی کی اس تحریک کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ایک کردار بڑی اہم نوعیت کا ہے جسے کوئی بھی حقیقت پسند مورخ نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اور یہ کردار تحریک پاکستان کے ہیرو خالق لفظ پاکستان چوہدری رحمت علی مرحوم کا ہے۔ جنہوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی قرار داد پاکستان سے پچیس سال پہلے اور علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد سے پندرہ سال قبل برصغیر کے مسلمانوں کیلئے نہ صرف علیحدہ مملکت کا خاکہ پیش کیا بلکہ اس مملکت پاک کا ایک خوبصورت نام ” پاکستان تخلیق کیا۔ اور اس کے حصول کیلئے باقاعدہ تحریک چلائی کتابچے شائع کروائے بڑی بڑی شخصیات سے رابطے کئے اخبارات میں مراسلے لکھے اور برصغیر کے مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین کروائی کہ اس دور میں اگر پاکستان کا قیام عمل میں نہ آیا تو پھر کبھی بھی یہ کارنامہ سرانجام نہ پا سکے گا ۔ انہوں نے اپنے مشہور زمانہ پمفلٹ ”اب یا کبھی نہیں، میں پہلی بار نہ صرف پاکستان کا نام تجویز کیا بلکہ اپنی پوری زندگی تحریک قیام پاکستان کیلئے وقف کر رکھی تھی ۔ انہوں نے بے سروسامانی کی حالت میں اس وقت کیمبرج (لندن) میں پاکستان نیشنل موومنٹ شروع کی جب برصغیر کا کوئی مسلمان راہنما پاکستان کا نام لینا گوارا نہیں کرتا تھا۔ قرار داد پاکستان سے پہلے دنیا بھر میں جہاں بھی اگر کسی کتاب میں پاکستان کا نام آیا تو صرف اور ابھر تو صرف چوہدری رحمت علی کی بدولت اور ان کی اسی تحریک ہی کے حوالے سے آیا ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی طرح چوہدری رحمت علی بھی مسلمانان ہند کی جدا گانہ سیاسی اور مذہبی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں الگ قوم خیال کرتے تھے۔ اس دو قومی نظریے کو انہوں نے اپنی کتابوں اور تقاریر میں کئی مقامات پر بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے ۱۹۳۳ء میں اپنے انقلابی پمفلٹ ”اب یا کبھی نہیں“ میں اس امر پر یوں روشنی ڈالی تھی کہ ہم اپنے مخصوص مذہب کلچر، تاریخی روایات، اقتصادی نظام، وراثت، جانشینی اور شادی بیاہ کے قوانین کی رو سے انڈیا کے باقی حصے میں مقیم لوگوں سے بنیادی طور پر مختلف ہیں۔ یہ اختلافات وسیع البنیا د اصولوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کا دائرہ اثر ہماری زندگیوں کی چھوٹی چھوٹی تفاصیل تک پھیلا ہوا ہے ہمارا کھانا پینا، ہمارا بہن سہن ، ہمارا لباس، ہماری قومی رسومات اور ہمارے کیلنڈ رسب ہندؤوں سے مختلف ہیں۔ اس سے قبل ۱۹۱۵ء میں جب چوہدری رحمت علی اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علم تھے آپ نے ایک ادبی تنظیم بزم شیلی کی بنیاد رکھی اور اس تنظیم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ واضح اعلان کیا کہ ہندوستان کے شمالی مغربی علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ہم اسے مسلم علاقہ ہی کہیں گے لیکن یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہم متحدہ قومیت کو خیر باد کہ دیں۔ اور ہندوستان سے قطع تعلق کر لیں۔ اور جتنا جلدی ہم یہ کریں گے یہ ہمارے لیے بھی اور ہمارے مذہب اسلام کے لیے بھی بہتر ہوگا۔ آپ نے اپنے نظریے کی تبلیغ واشاعت کے لیے۱۹۳۳ء میں پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیا درکھی اور انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں پاکستان نیشنل موومنٹ کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے لکھا کہ تنظیم انڈین فیڈریشن کی سختی سے مخالفت کرتی ہے اور اس اندیشے کے تحت کہ کہیں مسلمان ہندؤوں کی غالب اکثریت میں جذب اور قلیل ہو کر نہ رہ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ صدیوں پرانے ہند ومسلم تنازعہ کا واحد حل یہ ہے کہ ہندوستان اور برطانیہ ایک علیحدہ مسلم مملکت کے مطالبے کو تسلیم کر لیں۔ بعد ازاں چوہدری رحمت علی نے اپنے مشہور زمانہ پمفلٹ ”اب یا کبھی نہیں ، میں اس آزاد مملکت کا نام اور نقشہ بھی تجویز کیا۔ آپ اپنی کتاب ” پاکستان بائی رحمت علی میں لکھتے ہیں کہ مجھے احساس تھا کہ موجودہ زمانہ میں ہماری قوم کے استقلال کے لیے ایک ایسے قومی نام کا ہونا ضروری ہے جو بیک وقت ہم سب مسلمانوں کی روح اور اصول حیات کا مظہر ہو۔ اور یہ ایک متبرک کام بھی تھا۔ اسی کام کے لیے انہوں اپنی تعلیم کو نظر انداز کر دیا۔ گھر بار، پیشہ، ملازمت ہر خیال کو ترک کر کے اس کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ چلے کاٹے، اللہ تعالیٰ سے رہبری اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے استخارے کیے اور دعائیں مانگیں۔ تا آنکہ رحمت خداوندی جوش میں آئی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں لفظ پاکستان، عطا کیا۔ لیکن اس مملکت پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جب پہلی بار چوہدری رحمت علی پاکستان تشریف لائے تو ان کی وہ پذیرائی نہ ہوئی جس کے وہ مستحق تھے۔ لہذا آپ حالات سازگار نہ ہونے کے پیش نظر واپس لندن روانہ ہو گئے-۱۹۵۰ء میں آپ کے ایک دوست جناب امجد خان کیمبرج گئے اور انہیں دوبارہ واپس لانے کیلئے رضامند کیا لیکن شائد اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا۔ اور آپ ۳ فروری ۱۹۵۱ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ چوہدری رحمت علی تحریک قیام پاکستان کے وہ مظلوم ترین رہنما ہیں جن کی زندگی کے آخری ایام بڑی مفلسی اور تنگدستی میں گزرے۔ انہوں نے بڑی ہی مجبوری کے عالم میں عما نویل کالج کے پرنسپل مسٹر ویل بورن کو ایک دردمندانہ خط لکھا، جو پوری پاکستانی قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس میں درج تھا کہ میں آپ کے کالج کا پرانا طالب علم ہوں اور اس وقت شدید بیماری میں مبتلا ہوں جس سے جانبر ہونا مشکل ہے ایک مسلمان ہونے کے ناطے میری آخری رسومات بطور مسلمان ادا کی جائیں یعنی مجھے با قاعدہ کوئی مسلمان غسل دے کفن پہنائے اور نماز جنازہ پڑھائے۔ عمانویل کالج کے سربراہ مسٹر ویل بورن نے انہیں ایولین نرسنگ ہوم میں داخل کروایا جہاں ۳ فروری کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ویل بورن ایک دردمند انسان تھا اس نے اپنے کالج کے نوٹس بورڈ پر ایک اپیل لگا دی کہ اس کالج کے ایک مسلم طالب علم اسلامی طریقہ سے دفنانے کیلئے کسی مسلم طالب علم کی خدمات درکار ہیں۔اس پر مصر کے دو مسلم طالب علم آئے جنہوں نے باقاعدہ اسلامی طریقہ سے غسل دیا کفن پہنایا، جنازہ پڑھا اور عمانویل کالج کے فنڈ سے بطور قرض دو سو پونڈ لے کر ایک نہایت مضبوط اور ہوا بند تابوت بنایا جس میں ایک خاص قسم کی لائٹنگ لگائی گئی تا کہ میت صدیوں محفوظ رہے اور ان کی میت کو کیمبرج سٹی کے عیسائی قبرستان میں امانت دفن کر دیا تا کہ ان کے ورثاء جب چاہیں قبرستان کے مہتم کو درخواست دے کر میت لے جائیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے جس شخص نے اپنے وطن کی آزادی کیلئے مجاہدانہ کوشش کی اسے آزادی وطن کے بعد وہاں گوشہ عافیت بھی نصیب نہ ہوسکا۔ وہ عظیم نیک سیرت انسان ، پاک منش پاک پلان پاک آئیڈیا لوجی اور لفظ پاکستان کو دور دزباں بنانے والے کو دیار غیر سے پاک وطن لا کر دفن کرنے کا تاحال کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔ چوہدری رحمت علی فاؤنڈیشن مرحوم کے یوم وفات کے موقع پر حکومت پاکستان سے پر زور مطالبہ کرتی ہے کہ چوہدری رحمت علی کے جسد خاکی کو لندن سے پاکستان لاکر ان کے شایان شان مینار پاکستان کے سائے تلے یا پھر دارالحکومت اسلام آباد میں شکر پڑیاں کے مقام پر پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے۔ اور ان کے یوم وفات کو سرکاری سطح پر منایا جائے۔

نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی مرحوم کے متعلق اہم شخصیات کا خراج عقیدت

پیر علی محمد راشدی

نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے کسی مرد راہ داں کیلئے
نگہ بلند، سخن دلواز جان پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
(علامہ محمد اقبال لاہور . ۲۳ جنوری ۱۹۳۰)

مینار پاکستان

اس وقت تک بے معنی رہے گا جب تک
یہ مقام اس شخص کی آخری آرام گاہ
’’پاکستان ‘‘نہیں بنتا جس نے ہم کو
کا نام دیا اور تقسیم برصغیر کا اصول بتایا۔

رئیس امروہوی

آج مدہم پڑگئے جس کی یادوں کے نقوش
ہاں کبھی وہ داستاں عزم و ہمت بھی تو کہہ
نام پاکستان کا دنیا کے نقشے پر لکھا
چوہدری رحمت علی نے رحمت اللہ علیہ

معروف شاعر مظفر وارثی

تیل اس کا دیا اسی کا چمن سارا نقشہ اسی کا
ہر فانوس ہے اس سے خالی ہر گلدان سے دور پڑا ہے
مورخین پر بھی ہے گویامصلحتوں کی اجارہ داری
عدل کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں جو میزان سے دور پڑا ہے
یوں نہ اسے کجلایا جائے اس کا جرم بتایا جائے
حرف سرفہرست ہے لیکن ہر عنوان سے دور پڑا ہے