جمعرات‬‮   25   اپریل‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

مقبوضہ کشمیرسے مقبوضہ جوناگڑھ تک

       
مناظر: 901 | 10 Jan 2023  

تحریر :عمرفاروق /آگہی

آپ نے کبھی سروے آف پاکستان سے جاری ہونے والے سرکاری نقشے دیکھے ہوں تو ان میں آپ کو پاکستان کے نقشے میں دائیں جانب نیچے کی طرف ایک چوکھٹے کے اندر ریاست جوناگڑھ بھی دکھائی دیتی ہے۔اس نقشے میں شمال کی جانب کشمیر بھی شامل ہے، لیکن اس کے ساتھ میں سرخ روشنائی سے وضاحت رقم ہے کہ جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا معاملہ متنازع ہے۔ لیکن جوناگڑھ کے ساتھ ایسی کوئی وضاحت درج نہیں ہے، اس نقشے کے مطابق یہ صاف صاف پاکستان کا حصہ ہے۔تقسیم ہندکے وقت چھ ریاستیں ایسی تھیں کہ جوہندوستان کے ساتھ شامل نہیں ہوناچاہتی تھیں جن میں ٹراونکور،جودھ پور،بھوپال ،حیدرآباد،جوناگڑھ اورکشمیرشامل تھیں ۔ہندوستان کی جنوبی ساحلی ریاست ٹراونکورنے بھارت میں شمولیت سے انکارکرتے ہوئے آزادریاست بنانے کااعلان کیا تھا۔ مگربعدازاں جولائی 1947 میں بھارتی دبائوپرریاست کے دیوان نے الحاق ہندوستان پردستخط کردیئے ۔ موجودہ انڈیا میں ٹرانکور کا رقبہ اب کیرالہ، کنیا کماری اور تامل ناڈو پر مشتمل ہے۔راجستھانی ریاستوں میں سب سے بڑی راجپوتانہ ریاست جودھ پورتھی جس کارقبہ 93424مربع کلومیٹر تھا مہاراجہ ہنونت سنگھ کا خیال تھا کہ اس کی ریاست کی سرحدیں چونکہ پاکستان کے ساتھ ملتی ہیں اس لیے پاکستان میں شمولیت اس کے لیے زیادہ سود مند ہوگی۔مگربھارتی حکومت کے دبائواوردھمکیوں کی وجہ سے وہ اپنے خیال کوعملی جامہ نہیں پہناسکے۔رقبے کے لحاظ سے ہندوستان کی دوسری بڑی ریاست بھوپال بھی آزاد ی چاہتی تھی۔ ریاست کی اکثریت ہندو تھی تاہم اس کے نواب حامد اللہ خان مسلمان تھے۔ نواب حامدریاست کی آزاحیثیت برقراررکھناچاہتے تھے مگر تقسیم کے بعدبھارت نے یہاں جنگ چھیڑدی جس کے بعد 30 اپریل 1949 کو نواب نے بھارت میں شمولیت کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔رقبے کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے حیدر آباد سب سے اہم ریاست تھی۔ نظام عثمان علی خان ریاست کی آزادحیثیت برقرارکھناچاہتے تھے ۔مگربھارتی حکومت نے آپریشن پولو کے تحت ستمبر 1948 میں اپنی فوجیں ریاست میں بھیج کرکشمیراورجوناگڑھ کی طرح اس ریاست پربھی قبضہ کرلیا، موجودہ انڈیا میں اس ریاست کو تین حصوں میں بانٹ کر اس کے تین صوبے بنائے گئے ہیں جن میں تلنگانا، کرناٹک اور مہاراشٹر شامل ہیں۔حیدر آباد کی طرح جونا گڑھ نے بھی 15 اگست تک بھارت میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ کاٹھیاواڑ کی ریاستوں میں جونا گڑھ سب سے اہم ریاست تھی۔ جہاں نواب محمد محبت خان سوم حاکم تھا۔ نواب مہابت خانجی نے قانون آزادی ہند 1947 کے تحت پاکستان سے الحاق کیا تھا۔ گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے 15 ستمبر کو الحاق جوناگڑھ کی دستاویز پر دستخط کرکے اسے باقاعدہ پاکستان میں شامل کیا۔ تاہم قریبا دو ماہ تک پاکستان کا حصہ رہنے والی ریاست جوناگڑھ پر 9 نومبر1947 کو شب خون مارا گیا، جس پر تاحال بھارت کا غیر قانونی قبضہ برقرار ہے۔بھارتی قبضے کے خلاف قائداعظم محمدعلی جناح نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا،جوناگڑھ پربھارتی قبضے کیخلاف سلامتی کونسل میں ایک قرار داد آج بھی اس کے ایجنڈے میں موجود ہے۔ جوناگڑھ کا مسئلہ پہلی مرتبہ 11 فروری 1948 کو سلامتی کونسل میں زیر بحث آیا تھا، جس میں پاکستان کی نمائندگی سر ظفر اللہ خان کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ واضح کیا تھا کہ جوناگڑھ کا مسئلہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کشمیر۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں جوناگڑھ کا ذکر کشمیر کے ساتھ سلامتی کونسل میں پیش ہوتا رہا، جس میں آزادانہ استصواب رائے پر زور دیا گیا۔ فروری 1971 میں بھی جوناگڑھ کو کشمیر کے ساتھ منسلک کرکے سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تھا۔ نواب محمد جہانگیر خانجی کا کہنا ہے کہ ریاست جوناگڑھ کا پاکستان سے الحاق کا قانون موجود ہے، جو ویانا کنونشن کے تحت الحاق کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ دستاویز الحاق ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جو ریاستوں کے درمیان تحریری شکل میں طے پایا اور جس کا تحفظ بین الاقوامی قانون کرتا ہے۔ جہانگیر خانجی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جوناگڑھ کا مسئلہ اس وقت تک قانونی طور پر زندہ رہے گا جب تک الحاق کی یہ دستاویز محفوظ ہے۔ ریاست جوناگڑھ کا رقبہ دس ہزار مربع کلومیٹر تھا اور اس میں ایک ہزار کے قریب دیہات و قصبات شامل تھے۔ 1941 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی آٹھ لاکھ 16 ہزار تھی۔1748 میں ریاست جونا گڑھ قائم ہوئی۔1807 میں یہ برطانوی زیر حمایت ریاست بن گئی۔1818 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا ۔ریاست کا کراچی سے سمندری فاصلہ 480 کلو میٹر ہے۔یعنی ساحل کراچی سے صرف 44 میل کے فاصلے پر ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت صرف کراچی میں ریاست جونا گڑھ کے 20 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔وہ اس امید پر ہیں کہ کبھی ریاست سے بھارت کا غاصبانہ قبضہ ختم ہو کر رہے گا اور جونا گڑھ پاکستان کا حصہ بن جائے گا ،دستور پاکستان 1956، دستور پاکستان 1962 اور دستور پاکستان 1973 یہ واضح کرچکے ہیں کہ جو ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کرتی ہیں وہ پاکستان کا حصہ ہیں۔گورنمنٹ آف پاکستان نے نیا سیاسی نقشہ2020 میں جاری کیا تھاجس میں میں جوناگڑھ کوپاکستان میں شامل کیاگیاہے ،جوناگڑھ کے رہائشیوں کامطالبہ ہے کہ جس طرح پاکستان میں ہر صوبے، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کی نمائندگی کے لیے ان کی اسمبلیاں موجود ہیں اسی طرح جونا گڑھ کمیونٹی جو پاکستان میں رہ رہی ہے ان کی نمائندگی کے لیے جونا گڑھ اسمبلی کا قیام عمل میں لایاجائے-مسئلہ جونا گڑھ اور جونا گڑھ کمیونٹی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے وزارت امورِ کشمیر کی طرح مخصوص وزارت کا قیام عمل میں لایا جائے- جونا گڑھ کمیونٹی کو پاکستانی قانون میں مخصوص حیثیت رکھنے کی بنا پر تمام شعبہ ہائے زندگی میں علیحدہ نمائندگی دی جائے- جوناگڑھ پر پاکستان کا مئوقف اصولی اور غیر مبہم تھا، جس میں کسی قسم کا قانونی سقم نہیں تھا۔ تاہم بھارت اسے دخل اندازی سے تعبیر کرتا تھا اور جوناگڑھ میں ہندوئوں کی اکثریت کا واویلا کرکے پاکستان کے ساتھ اس کے الحاق پر معترض تھا۔ دوسری جانب بھارت یہی اصول کشمیر کے مسئلے میں یکسر نظر انداز کر رہا ہے۔ حالاں کہ تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت ریاستوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ دونوںممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرسکتے ہیں، اس میں جغرافیائی حیثیت اور رعایا کی خواہشات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری تھا۔ کشمیر کے مہا راجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق رعایا کی مرضی کے برخلاف کیا تھا۔ دوسری طرف جوناگڑھ کے نواب کے فیصلے پر رعایا نے اعتراضات نہیں اٹھائے۔ مقام حیرت یہ ہے کہ بھارت جوناگڑھ میں رائے شماری پر تو بضد رہا لیکن کشمیر میں سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت رائے شماری پر رضامندی ظاہر کرنے کے باوجود تاحال اس کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔مسئلہ جوناگڑھ اور مسئلہ کشمیر بھارت کی دوغلی پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ دونوں تنازعات بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر اور مقبوضہ جوناگڑھ کے مقدمات ہمیں بیک وقت عالمی سطح پہ لڑنے چاہئیں اوربھارتی جارحیت اور توسیع پسندانہ عزائم کو بے نقاب کرناچاہیے ۔