جمعہ‬‮   29   مارچ‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

مقبوضہ کشمیر میں G-20

       
مناظر: 722 | 23 May 2023  

تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

مقبوضہ وادیٔ کشمیر دنیا کا خوبصورت ترین خطہ ہے۔ یہ حسین وادیوں‘ دلکش چوٹیوں‘ نیلگوں جھیلوں‘ پہاڑوں سے گرتے سنبھلتے جھرنوں‘ تا حدِ نگاہ پھیلے ہوئے سبزہ زاروں اور میٹھے ٹھنڈے پانیوں کی سرزمین ہے۔ آج تو ایک زمانہ اس کے قدرتی حسن کے گن گاتا ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے سیّاح یہاں کی وادیوں کے نظّارے کیلئے بے قرار رہتے ہیں۔
وادیٔ گل رنگ سردیوں میں جب برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے تو کھلے ہوئے سرخ رنگ چناروں سے یہاں کے حسن میں مزید دلکشی پیدا ہو جاتی ہے۔ جب سے علامہ اقبال کی زبانی حسنِ کشمیر کی کہانی سنی تب سے دل میں ہر دم جواں ہوتی اس خواہش نے چین نہ لینے دیا کہ زیارتِ حجازِ مقدس کے بعد خدا وادیٔ کشمیر‘ مقبوضہ نہیں خود مختار کشمیر دیکھنے اور وہاں کی عطربیز فضاؤں میں سانس لینے کا موقع عطا کرے‘ آمین
علامہ اقبالؒ کو کشمیر سے بھی بڑی قلبی و روحانی محبت و عقیدت تھی۔ وہ کشمیر کے حسن کے اسیر اور اپنے بزرگوں کی سرزمین کے بڑے مدّاح تھے۔ ذرا حضرت علامہ کا یہ شعر دیکھئے جس میں اقبال نے کس خوبصورتی سے اپنی داستانِ حیات بیان کر دی ہے:
تنم گُلی ز خیابانِ جنتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است
کہ میرا بدن گلستانِ کشمیر کا ایک پھول ہے اور میرا دل ارضِ حجاز اور میری صدا شیرازسے ہے۔ کتنے ظلم اور افسوس کی بات ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہنے والا بھارت گزشتہ سات دہائیوں سے اس حسین وادی کے جفاکش اور باہمت باسیوں کو بزور ِشمشیر اپنا غلام بنانے کی کوشش کر رہا ہے‘ مگر وادی کے بیٹوں اور پربتوں کی شہزادیوں نے اپنے عزمِ جواں سے عدو کی زنجیروں کو توڑ پھینکا ہے۔
بھارت کشمیر کے حریت پسندوں کو زیرِ دام لانے کیلئے نت نیا جال بچھاتا رہتا ہے مگر اسے نہ صرف اس میں کامیابی نہیں ہوتی بلکہ اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ بھارت گروپ آف 20کا رکن ہے۔ اس گروپ کی ایک ذیلی کمیٹی برائے توسیعِ سیاحت کا سربراہی اجلاس سری نگر کشمیر میں 22 تا 24مئی یہاں منعقد کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ قارئین کرام! آپ کو یاد کرا دوں کہ جی20- دنیا کے بیس ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کا ایک فورم ہے جسے 1999ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس فورم کا بنیادی مقصد دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں کے درمیان اقتصادی تعاون بتایا جاتا ہے۔ ان ممالک میں تقریباً تین چوتھائی دنیا تو شامل ہے البتہ پاکستان شامل نہیں۔ اس فورم میں امریکہ‘ چین‘ روس‘ آسٹریلیا‘ برازیل‘ ارجنٹینا‘ جرمنی‘ فرانس اور انڈیا وغیرہ شامل ہیں۔
اس فورم میں ہر سال ایک ممبر اپنے ملک میں اس کا اجلاس منعقد کرتا ہے۔ 2023ء میں بھارت کی باری ہے۔ ٹورازم کے فروغ کیلئے منعقد ہونے والے اس اجلاس کیلئے بھارت نے اپنے تئیں یہ شاطرانہ چال چلی کہ اس کا اجلاس مقبوضہ کشمیر کے صدر مقام سری نگر میں رکھا جائے تاکہ جب دنیا کی سپر پاورز اور دیگر اہم ممالک یہاں آ کر شرکت کریں گے تو گویا وہ اس متنازع خطے کے بھارتی علاقہ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دیں گے۔ مگر بھارت کو یہ چال بہت مہنگی پڑی اور مسئلہ کشمیر دبنے کے بجائے ساری دنیا کے سامنے ایک بار پھر مزید اجاگر ہو کر سامنے آ گیا ہے۔
بھارتی ہزیمت کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے ذرا یہ سن لیجئے کہ بھارت نے پہلے سے ہی محکوم و مجبور حریت پسند کشمیریوں پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ گویا اس وقت وادی میں ایک طرح سے کرفیو کا سماں ہے۔ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تب یہ جی20-کانفرنس کا دوسرا دن ہوگا۔ کئی ہفتوں سے وادی کو فوجی قلعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ فوجی و نیم فوجی دستے سری نگر کی سڑکوں پر سراغ رساں کتوں کے ساتھ گشت کر رہے ہیں۔ بے شمار شہریوں کو گرفتار اور نظر بند کر دیا گیا ہے۔ شہریوں کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے مظاہروں سے دور رہنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
یاد رکھئے ظالم ہمیشہ کوتاہ نظر ہوتا ہے۔ بھارت کشمیر میں اپنے ظالمانہ و جابرانہ قبضے پر مہرِ تصدیق ثبت کرانے کے خیالوں میں مگن تھا مگر اس کی بازی الٹ گئی ہے‘ چین نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ وہ سری نگر اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا کیونکہ کسی متنازع علاقے میں کسی عالمی فورم کا اجلاس منعقد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح سفارتی ذرائع سے آنے والی خبروں کے مطابق سعودی عرب‘ ترکی اور مصر بھی جی 20کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔ ساری دنیا میں مقبوضہ و متنازع علاقے میں G-20کے سیاحتی ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کرنے کے پیچھے بھارت کی مکارانہ سوچ کو بے نقاب کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر اقوام متحدہ اور اس کے طاقتور ادارے سکیورٹی کونسل کو اُن کی قراردادیں‘ وعدے اور یادداشتیں یاد دلائی جا رہی ہیں۔ 1948ء میں جب سری نگر میں وہاں کی اکثریتی آبادی یعنی مسلمان داخلی جنگ میں غلبہ حاصل کرنے والے تھے تب بھارت بھاگا بھاگا یو این او پہنچا اور سیز فائر کیلئے فریاد کی۔ پاکستان بھارت کے مکر و فریب کو خوب پہچانتا تھا مگر اس نے قیام امن کی خاطر عالمی ادارے کی گارنٹی کو تسلیم کرلیا۔ یوں 21اپریل 1948ء کو منظور ہونے والی سکیورٹی کونسل فریقین بھارت اور پاکستان کی رضامندی سے یہ تاریخی قرار داد منظور کی۔ اس قرارداد کے مطابق وادیٔ کشمیر میں دونوں فریق سیز فائر اور قیام امن کے تقاضوں کی پابندی کریں گے۔ اس کے علاوہ امن قائم ہوتے ہی سکیورٹی کونسل کی زیرنگرانی وہاں پر استصواب رائے کا انتظام کیا جائے گا جس میں کشمیری آزادانہ طورپر فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان سے الحاق کریں گے یا بھارت کے ساتھ۔ 5جنوری 1949ء کو پہلی قرارداد کی مزید تفصیلات کے ساتھ توثیق کی گئی۔ اسی طرح گزرتے مہ و سال کے ساتھ بہت سی اور قراردادیں سکیورٹی کونسل اور یو این او نے منظور کیں مگر بھارت نے کسی قرارداد پر عمل نہ کرنے کا اعلانیہ و غیر اعلانیہ ارادہ باندھ رکھا ہے۔ بھارت نے اگست 2019ء کو کشمیر کے سپیشل سٹیٹس کو بھی غیر قانونی طور پر ختم کر دیا ہے۔
اس دوران کشمیر کے مسئلے پر بھارت سے پاکستان کی تین جنگیں ہوئیں۔ پہلی 1948ء‘دوسری 1965ئاور تیسری کارگل کی جنگ 1999ء میں ہوئی مگر جنگیں بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکیں۔ پاکستان بھی سری نگر میں ہونے والی G-20 کانفرنس کی مذمت کر چکا ہے۔ ہفتے کی شب آزاد کشمیر اسمبلی کے سابق رکن اور ممتاز کشمیری رہنما عبدالرشید ترابی نے بتایا کہ 22مئی کو آزاد کشمیر میں جی20کانفرنس کے وادی میں انعقاد کے خلاف مظاہرے ہوں گے۔باغ آزاد کشمیر میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جلسے سے خطاب کریں گے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اس فیصلے کے خلاف ہڑتال کی جائے گی۔ چند روز قبل بھارتی وزیراعظم مودی نے کہا تھا کہ ہم ہمسایہ ملک کے ساتھ امن و سلامتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ بھارت جب تک پاکستان کے ساتھ نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا اور یو این او کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق رائے دہی نہیں دے گا اس وقت تک اس خطے میں امن نہیں قائم ہو سکتا۔