منگل‬‮   19   مارچ‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کی دربدری

       
مناظر: 874 | 25 Mar 2023  

تحریر : ایس اے زاہد

بھارت کی جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں مسلمان خاندانوں کو بے گھر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ حکومتی مؤقف کے مطابق یہ لوگ ناجائز قابضین ہیں۔ اس لئے ان کا قبضہ ختم کروایا جارہا ہےجب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں ریاستی ہائی کورٹ نے بھی ظلم میں شریک ہوتے ہوئے یکطرفہ فیصلہ جاری کیا، جس کے مطابق وہاں تقریباً ساڑھے چار ہزار مسلمانوں کے گھروں کو گرانے اور ان خاندانوں کو بے گھر کرنے پر عمل شروع کیا گیا۔

ان مسلمان خاندانوں کا مؤقف ہے کہ وہ یہاں ستر سال سے بھی زیادہ عرصہ سے رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے قیمت ادا کرکے یہ زمینیں خریدی ہیں اور پھر ان پر گھر تعمیر کئے ہیں۔ ان کے پاس ان زمینوں کی باقاعدہ رجسٹریاں اور قانونی کاغذات موجود ہیں۔ لیکن عدالت میں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور عدالت نےبے انصافی پر مبنی فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو ہمارے ذاتی اور قانونی گھر گرانے کی اجازت دے دی۔ یہ بھی واضح رہے کہ جن ریاستوں میں مسلمانوں کے گھر گرا کر انہیں بے گھر کرنے کا عمل شروع کیا گیا وہاں ہندوئوں کے گھر بھی ہیں لیکن ان کو مسمار نہیں کیا جارہا۔ اصل مقصدہندو توا کا فروغ اور آر ایس ایس نامی دہشت گرد تنظیم کی بدمعاشی ہے۔

عدلیہ بھی اس سازش میں برابر کی شریک ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق مذکورہ ریاست کے مختلف شہروں اور قصبوں میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کیا جاچکا ہے۔ ادھر شمال مشرقی ریاست آسام میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں بھی تجاوزات کے نام پر مسلمانوں کے ہزاروں گھر مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

وہاں بھی ہندوئوں کے چھوڑ کر صرف مسلمانوں کے گھر گرائے جارہے ہیں جن کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے۔ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت اجین شہر میں مسلمانوں کے گھر منہدم کر رہی ہے۔ بھارتی ریاستوں اتراکھنڈ، آسام اور مدھیہ پردیش میں اب تک ہزاروں بے قصور مسلمان خاندانوں سے ان کے ذاتی اور قانونی گھر چھین کر انہیں بے گھر کر چکی ہے۔ مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا یہ مذموم سلسلہ بھارت میں ہی نہیں مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں بھی جاری کر رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تو مودی حکومت کے عزائم مزید مکروہ اور خطرناک ہیں وہاں غیر کشمیری ہندوئوں کو لاکر آباد کیا جارہا ہے۔

شاید ہی کوئی ظلم ایسا ہو جو بھارت نے نہتے اور بے گناہ کشمیریوں پر نہ ڈھایا ہو۔ 5اگست 2019ء مقبوضہ کشمیر کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن تھا۔ اس دن مودی سرکار نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ یہ کشمیریوں پر ظلم کے ایک اور باب کا آغاز تھا۔ ایک منظم سازش کے لئے یہ منصوبے کی ابتدا تھی، جس کے آثار جلد ہی نظر آناشروع ہوگئے یہ کشمیریوں کے حق پر ڈاکا تھا تاکہ مظلوم کشمیریوں کو ان کی آئینی حیثیت اور حق سے بھی محروم کیا جائے۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو منسوخ کیا گیا اس منسوخی سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی آئین کے آرٹیکل 35-Aکو بھی منسوخ کر دیا گیا۔

ان دونوں آرٹیکلز کی منسوخی سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، حکمران جماعت بی جے پی اور اس جماعت کی ذیلی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کی راہ میں موجود یہ رکاوٹیں ختم ہوگئیں۔ آرٹیکل 35Aکے مطابق غیر کشمیریوں کے مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور وہاں مستقل آباد ہونے کی ممانعت تھی اس آرٹیکل کی منسوخی سے 14ملین کشمیریوں کو آئینی حق سے محروم کر دیا گیا۔ ان اقدامات سے بھارت کی نام نہادجمہوریت کا چہرہ تو دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا لیکن دنیا مقبوضہ کشمیر کے مسئلے اور کشمیریوں پر گزشتہ ستر سال سے جاری بھارتی ظلم پر ابھی تک شرمناک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔

آرٹیکل 35Aکی منسوخی کے بعد بھارت نے اپنے مکروہ منصوبے پر عمل شروع کیا اور غیر کشمیری ہندوئوں کو کشمیر میں آکر زمینیں خریدنے اور وہاں مستقل آباد ہونے کی دعوت دی۔ ان غیر کشمیری ہندوئوں کو کشمیر میں آباد کاری کے لئے متعدد مراعات کی پیشکش بھی کی گئی۔ اس دعوت کے بعد لاکھوں کی تعداد میں غیر کشمیری ہندو مقبوضہ کشمیر پہنچے اور وہاں مسلمانوں کی جائیدادوں پر نہ صرف ناجائز قبضے کئے بلکہ ان زمینوں کے مالکانہ حقوق کے سرکاری کاغذات بھی حاصل کئے۔

اس سارے عمل میں آر ایس ایس کے غنڈوں، پولیس اور غاصب بھارتی فوج کی مدد بھی ان غیر کشمیری ہندوئوں کو حاصل رہی۔ یوں اب تک تقریباً سات لاکھ غیر کشمیری ہندو خاندان کشمیر میں زمینوں اور گھروں کے مالک بن چکے ہیں۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں رہائش پذیر مسلمان وہاں کی واضح اکثریت ہیں۔ غیر کشمیریوں کو وہاں لاکر آباد کرنے کے تین بڑے مقاصد تھے۔ ایک ،مسلمانوں کی وہاں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے۔دوسرا، مسلمانوں کو ان کی جائیدادوں، گھروں اور کاروبار سے محروم کرکے ہندوئوں کو مسلط کیا جائے۔

تیسرا مقصد یہ تھا کہ مختلف حیلوں سے مسلمانوں کو ملازمتوں سے فارغ کرکے غیر کشمیری ہندوئوں کو سرکاری ملازمتیں دی جائیں، بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو مودی حکومت کی طرف سے بے گھر کرنے اور ان کے گھروں اور زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے کے خلاف ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آواز بلند کی ہے۔ برمنگھم یو کے میں اس عالمی تنظیم کے عہدیداروں نے ایک پریس بریفنگ میں بھارتی حکومت پر زوردیا ہے کہ بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کرنے اور ان کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کا عمل فوری روک دیا جائے اور اس سلسلے میں بین الاقوامی وضع کردہ قوانین سے تجاوز اور انحراف سے گریز کیا جائے۔ کاش اب ہی عالمی طاقتیں اور انسانی حقوق کے سوئے ہوئے علمبردار جاگ جائیں۔