جمعرات‬‮   28   ستمبر‬‮   2023
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

اسلام یا شہریت ، قرآن یا بھارتی آئین ، مسلمانوں کو مشکل صورتحال کا سامنا

       
مناظر: 765 | 26 Jul 2023  

ممبئی (نیوز ڈیسک )آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے دو دن قبل انٹیلی جنس ایجنسیوں میں اہم عہدوں پر مسلمان افسران کی غیر موجودگی کے بارے میں ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی حکومت پر سوالات اٹھائے تھے۔
اسدالدین اویسی نے رپورٹ کے سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’کئی دہائیوں میں پہلی بار انٹیلی جنس بیورو کی اعلیٰ قیادت میں کوئی مسلمان افسر نہیں ہوگا۔ یہ اس شکوک و شبہات کی عکاسی ہے جس نظر سے بی جے پی مسلمانوں کو دیکھتی ہے۔ آئی بی اور را مخصوص اکثریتی ادارے بن چکے ہیں۔ آپ مسلسل مسلمانوں سے ان کی وفاداری کا ثبوت مانگتے ہیں لیکن کبھی بھی انھیں اپنے برابر کا شہری تسلیم نہیں کرتے۔‘
ان کے اس ٹویٹ پر ہندی زبان کے شاعر اور عام آدمی پارٹی کے سابق لیڈر کمار وشواس نے اویسی سے سوال کیا کہ اگر انھیں ’اسلام اور انڈیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے تو وہ کس کو چنیں گے؟ اگر آپ کو قرآن اور آئین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے تو آپ کس کا انتخاب کریں گے؟‘
کمار وشواس کے اس تبصرے کے بعد اب سوشل میڈیا پر لوگ مختلف قسم کا ردعمل دے رہے ہیں۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان اس جاری اس ٹوئٹر جنگ نے ’مذہب بمقابلہ ملک‘ کی بحث کو جنم دیا ہے۔
لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ایک شناخت کو ثابت کرنے کے لیے دوسری شناخت ترک کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟
کمار وشواس کے ٹویٹ پر اویسی نے بھی جواب دیا لیکن انھوں نے کمار وشواس کا نام نہیں لیا۔
اپنے جواب میں اویسی نے کہا کہ ’انڈیا کی جاسوسی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں مسلمان افسران کی کمی والی میری ٹویٹ پر لوگوں نے بہت سارے سوالات اٹھائے، مسلمانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ مذہب اور ملک میں سے کس کا انتخاب کریں گے۔ پتہ نہیں کتنے لوگ ملک کی سلامتی کا سودا کرتے ہوئے پکڑے گئے، آئی ایس آئی (پاکستانی خفیہ ایجنسی) خواتین کے جعلی اکاؤنٹس بنا کر انھیں پھانس لیتی ہے۔ مذہب تو دور کیا کوئی ان سے پوچھے گا کہ یہ اپنی ہوس اور دیش میں کسے چنتے ہیں؟‘
کچھ لوگوں نے کمار وشواس کے سوال پر ہی سوال اٹھائے ہیں۔
ناقد راجیو دھیانی لکھتے ہیں کہ ’ایک کا انتخاب ہی تمام مسائل کی جڑ ہے، کمار بھائی۔ میں ایک انسان ہوں، ایک آدمی ہوں، ایک انڈین ہوں، ایک ہندی بولنے والا ہوں، ایک ہندو ہوں۔ میری اور بھی بہت سی شناخت ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بتانے یا پیار کرنے سے دوسری شناخت کو ترک کرنے یا پیچھے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
راجیو دھیانی نے پوچھا ہے کہ ان (کمار وشواس) کی بہت سی شناخت ہیں۔ کیا رام کتھا کے راوی کے طور پر اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے انھیں شاعر اور ٹیچر کی شناخت ترک کرنی پڑے گی؟ پھر اسد الدین اویسی کو انڈین ہونے کے لیے مسلمان ہونے کی شناخت کو چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) بار بار اسلام کو ’غیر ملکی‘ مذہب قرار دے رہی ہے۔
حال ہی میں ایک پروگرام کے دوران موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ’کچھ مذاہب انڈیا سے باہر کے تھے اور ہماری ان سے جنگیں ہوئیں، لیکن باہر والے تو چلے گئے، اب تو سب اندر والے ہیں، پھر بھی وہ باہر کے لوگوں کے زیر اثر ہیں، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ ہمارے لوگ ہیں، اگر ان کی سوچ میں کوئی کمی ہے تو اسے دور کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘
ساورکر بھی پِتر بھومی (آبائی سرزمین) اور پُنیہ بھومی (مقدس سرزمین) کے بارے میں بات کرتے تھے۔ یعنی جو لوگ انڈیا میں پیدا ہوئے ہیں، ان کا آبائی وطن انڈیا ہے، لیکن جو ہندو، بدھ، جین اور سکھ نہیں ہیں ان کی مقدس سرزمین انڈیا نہیں ہے۔ ساورکر کا خیال تھا کہ ایسی صورت حال میں ان کی محبت وطن اور مقدس سرزمین کے درمیان تقسیم ہو جائے گی۔
ساورکر نے ’ہندوتوا: ھو از اے ہندو‘ میں لکھا کہ ’ہمارے، مسلمانوں یا عیسائیوں کے کچھ معاملات میں، جنھیں زبردستی غیر ہندو مذہب میں تبدیل کیا گیا، ان کا آبائی وطن بھی وہی ہے اور ثقافت کا بڑا حصہ بھی وہی ہے لیکن پھر بھی انھیں ہندو نہیں مانا جا سکتا۔ اگرچہ ہندوؤں کی طرح ہی ہندوستان ان کا آبائی وطن ہے لیکن یہ مقدس سرزمین نہیں ہے۔ اس کی مقدس سرزمین بہت دور عرب ہے۔ ان کے عقائد، ان کے مذہبی رہنما، نظریات اور ہیرو اس مٹی کی پیداوار نہیں ہیں۔ ایسی صورت حال میں ان کے نام اور رویے غیر ملکی ہیں۔ ان کی محبتیں منقسم ہیں۔‘
ساورکر کے اس استدلال پر مورخ سید عرفان حبیب نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’بھگت سنگھ تو خدا میں یقین نہیں رکھتا تھا اور اس طرح ان کی تو کہیں بھی کوئی مقدس سرزمین نہیں تھی۔ قوم پرستی اور مذہب کو ملایا نہیں جا سکتا۔ مذہب بالکل الگ چیز ہے۔ کسی کی قوم پرستی مذہب سے متاثر نہیں ہوتی۔‘
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب اور ملک میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، اس لیے دونوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے اور چھوڑنے کی بات کرنا منطقی نہیں ہے۔
بہت سے لوگ کمار وشواس کے اس ٹویٹ کو بی جے پی سے ان کی مبینہ نظریاتی قربت سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔
ایسے ہی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’کسی کو اسلام یا انڈیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ آپ بھگوت گیتا یا گرو گرنتھ صاحب یا بائبل یا آئین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے سوال کیوں نہیں کرتے؟ کیا کمار وشواس آپ کی ذہنی حالت ٹھیک ہے یا آپ مسلمانوں کے خلاف نفرت ظاہر کر کے بی جے پی میں جانے کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں؟‘
صحافی روہنی سنگھ نے بھی کمار وشواس کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’لیکن کسی کو مذہب اور انڈیا میں سے کسی ایک کو کیوں چننا چاہیے؟ کیا ہم موہن بھاگوت یا جے پی نڈا کی عقیدت ثابت کرنے کے لیے اسی امتحان کا اطلاق کریں؟ ایک ملک اس کے لوگوں سے بنتا ہے نہ کہ زمین کے ٹکڑوں سے۔‘
ایک دوسرے صارف نے لکھا کہ ’جنابِ شاعر! یہ کیا بیہودگی ہے؟ اسد الدین اویسی جی کو انتخاب کیوں کرنا ہے؟ میں آپ سے یہ سوال بھی پوچھ سکتا ہوں- رام یا آپ کی ماں؟ گیتا یا امبیڈکر جی کا آئین؟ اپنا گھر یا رام مندر؟ کیونکہ ہم آپ کے لیول کے نہیں ہیں، ہم آپ سے ایسے غیر معقول سوال نہیں پوچھ رہے ہیں۔‘
بہر حال بہت سے صارفین ایسے بھی ہیں جو اسد الدین اویسی کے ٹویٹ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
راکیش کے سنگھ نامی صارف نے انڈین جاسوس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں میں مسلمان افسران کی کمی کے بارے میں اویسی کے ٹویٹ کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کو فرقہ وارانہ بنانے کی سستی کوشش قرار دیا ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ’وہ تمام لوگ جو قوم سے پہلے مذہب کا انتخاب کرتے ہیں، ان سے سوالات کیے جائیں گے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ سب سے بڑی ہوس ان لیڈروں کی ہے جو ہر چیز میں، ذات اور علاقے کے نام پر، ہندو اور مسلم کے نام پر، شیعہ اور سنی کے نام پر تقسیم اور لڑانے کا کام کرتے ہیں۔‘
اویسی نے جو رپورٹ شیئر کی ہے اس میں کیا ہے؟
انگریزی اخبار ایشین ایج میں ایک رائے شماری میں ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں میں اعلیٰ عہدوں پر مسلم افسران کی کمی کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق کئی دہائیوں کے بعد آئی بی میں کسی بھی اعلیٰ عہدے پر کوئی مسلم آئی پی ایس افسر نہیں ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق آئی بی میں سپیشل ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات سینیئر آئی پی ایس افسر ایس اے رضوی کو ان کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی میں مشیر بنا دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں آئی بی میں مسلم آئی پی ایس افسران کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔
یہ سابقہ دور حکومت کے بالکل برعکس ہے، جب آصف ابراہیم آئی بی ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچ سکتے تھے یا آسام کیڈر کے آئی پی ایس افسر رفیع العالم ایجنسی میں تعیناتی کے دوران اہم عہدوں پر فائز ہو سکتے تھے۔
مسلمانوں کی نمائندگی پر اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
رواں سال یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کا امتحان پاس کرنے والوں میں 29 مسلمان شامل ہیں۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ بار کے مقابلے اس تعداد میں تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، پولیس فورس میں مسلمانوں کی نمائندگی پر دی پرنٹ کی رپورٹ ایک مختلف تصویر دکھاتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق انڈیا کی تمام ریاستوں کی پولیس فورس میں صرف تین سے چار فیصد مسلمان ہیں۔ یہ رپورٹ ٹاٹا ٹرسٹ کی ایک تحقیق کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔
این سی آر بی کی سنہ 2013 کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کی پولیس فورس میں 1.08 لاکھ مسلمان تھے جو کل تعداد کا 6.27 فیصد ہے۔ لیکن سنہ 2007 میں یہ تعداد 7.55 فیصد تھی۔
تاہم اب مسلم پولیس اہلکاروں کی تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ کیونکہ مرکزی وزارت داخلہ نے سنہ 2015 میں ہی مسلم جوانوں کی تعداد کو عام کرنا بند کر دیا ہے۔