منگل‬‮   19   مارچ‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

خالصتان تحریک کا احیاء

       
مناظر: 812 | 22 Mar 2023  

تحریر : غلام اللہ کیانی

مقبوضہ جموں و کشمیر اور شمال مشرقی بھارت میں بھارتی ناجائز قبضے کے خلاف جاری تحریکوں کے دوران بھارت نے سکھوئوں کی آزاد وطن کے لئے خالصتان تحریک کے ایک بار پھرسر اٹھانے پر خوفزدہ ہو کرپنجاب میں آپریشن تیز کرتے ہوئے خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں سکھ کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ انٹرنیٹ پر سخت پابندی کے بعدپنجاب کا دنیا سے مواصلاتی رابط منقطع کر دیا گیا ہے۔چار دہائی قبل آپریشن بلیو سٹار کے بعد یہ سکھ آزادی پسندی کے خلاف سب سے بڑا کریک ڈائون ہے۔بھارتی قابض فورسز کی چھاپہ مار کارروائیاں ایک ایسے موقع پر عمل میں لائی جا رہی ہیں جب خالصتان کے حامی سکھ کارکنوں نے آسٹریلیا کے شہر برسبین میں خالصتان ریفرنڈم ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں حصہ لیتے ہوئے تقریباً 8,000 میل دور 11,000 سے زائد سکھوں کی حمایت میں لندن ہائی کمیشن میں داخل ہو کر ہندوستانی پرچم اتار خالصتان کے جھنڈے لہرا دیئے۔ درجنوں سکھ نوجوانوں کے ایک گروپ نے سینٹرل لندن میں انڈین ہائی کمیشن کے باہر جمع ہو کر سکھ مذہبی نعرے لگائے اور ایک آزادخالصتان ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ پگڑی پوش سکھ ہائی کمیشن کی عمارت کی بالکونی پر چڑھ گئے ، ہندوستانی ترنگا اتارا اور خالصتان کے جھنڈے لہرائے۔ یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستانی ہائی کمیشن کی عمارت سے ہندوستانی پرچم اتارا گیا دوسری طرف ہندوستان میں سکھوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات پر دنیا بھر میں ہندتوا ہندوستانی حکام اور سکھوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ کینیڈا، برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا، اٹلی، ملیشیا، عرب امارات، فلپائن، نیوزی لینڈ، تھائی لینڈ، اومان، سپین، جرمنی، ہانگ کانگ، کویت سمیت دنیا بھر میں سکھوں کی تعداد تقریباً 3کروڑ ہے، جن میں سے اڑھائی کروڑ ہندوستان میں رہتے ہیں، جو کہ کل سکھ آبادی کا تقریباً 90 فیصد ہے۔پاکستان میں سکھ آبادی کی تعدادتقریباً20ہزار بتائی گئی ہے۔ہندوستانی سکھوں میں سے تقریباً 76 فیصد شمالی ریاست پنجاب میں رہتے ہیں، جو ریاست کی آبادی کا تقریباً 58 فیصدہے۔ ہریانہ کے مرکز دہلی کے زیر انتظام علاقے میں ان کی تعداد تقریباً 12لاکھ ہے اور آبادی کا 4.91 فیصد ہے، راجستھان، اتر پردیش ، دہلی ، اتراکھنڈ ،مقبوضہ جموں و کشمیر،چندی گڑھ اور ہماچل پردیش میں بھی بڑی تعداد میں سکھ آباد ہیں۔کینیڈا دنیا میں سب سے زیاد سکھ تناسب (کل آبادی کا 2.1 فیصد) کا گھر ہے۔ برٹش کولمبیا کے مغربی صوبے میں سکھوں کی ایک بڑی کمیونٹی موجود ہے، جس کی تعداد تقریباً 300,000 ہے اور کل آبادی کا تقریباً 5.9 فیصد ہے۔ برٹش کولمبیا، مانیٹوبا، اور یوکون کو دنیا کی صرف چار انتظامی تقسیموں میں سے تین ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس میں سکھ آبادی میں دوسرا سب سے زیادہ پیروکار مذہب ہے۔خالصتان تحریک ایک آزادی پسند تحریک ہے، جو بھارت کے زیر قبضہ پنجاب میں خالصتان (’’خالصہ کی سرزمین‘‘) کے نام سے ایک الگ ملک بنانا چاہتی ہے تاکہ سکھوں کے لیے ایک وطن کے طور پر کام کیا جا سکے۔ خالصتان کی علاقائی تعریف پنجاب ہے اور اس میں ہریانہ، ہماچل پردیش،مقبوضہ جموں اور کشمیر اور راجستھان کے کچھ حصے شامل ہیں۔خالصتان تحریک کا تعارف 1971 ء میں، خالصتان کے لئے پہلی واضح کال نیویارک ٹائمز میں ایک سکھ(جگجیت سنگھ چوہان) کے شائع کردہ اشتہار میں کی گئی۔خالصتان کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے، وہ سکھوں سے لاکھوں ڈالر جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔1980ء کو، انہوں نے آنند پور میں’’نیشنل کونسل آف خالصتان‘‘ کے قیام کا اعلان کیا، خود کو کونسل کا صدر قرار دیا، اور بلبیر سنگھ سندھو کو اس کا سیکرٹری جنرل نامزد کیا۔ وہ لندن گئے جہاںخالصتان کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ بلبیر سنگھ سندھو نے امرتسر میں یہ اعلان کیا، انہوں نے خالصتان کے ڈاک ٹکٹ اور کرنسی جاری کرنا شروع کی۔آپریشن بلیو سٹار کے بعد بھارتی ریاست پنجاب میں خالصتان تحریک پروان چڑھی۔سکھ آزادی پسندوں کو کچلنے کے لئے 1985ء میں، ائیر انڈیا کی پرواز 182 پر حملے کا الزام خالصتان کی حامی تنظیم، ببر خالصہ پر لگا دیا گیا۔ 1986 ء میں گولڈن ٹیمپل پر آل انڈیا سکھ سٹوڈنٹس فیڈریشن اور دمدمی ٹکسال سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے قبضہ کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔اسی سال سربت خالصہ (ایک حقیقی پارلیمنٹ) کے نام سے جانے والے ایک اجتماع نے خالصتان کے قیام کے حق میں ایک قرارداد (گرمتا)منظور کی۔ اس کے بعد، خالصتان کے حق میں کئی عسکریت پسند گروپوں نے حکومت ہند کے خلاف ایک بڑی بغاوت کا آغاز کیا۔ ہندوستانی قابض فورسز نے 1990ء کی دہائی کے اوائل میںبظاہر تحریک کو کچل دیا، لیکن سکھ سیاسی گروپس جیسے خالصہ راج پارٹی اور ایس اے ڈی (اے) نے عدم تشدد کے ذریعے ایک آزاد خالصتان کی تحریک جاری رکھی۔خالصتان کی حامی تنظیمیں جیسے دل خالصہ (انٹرنیشنل) ہندوستان سے باہر بھی سرگرم رہیں۔ علیحدگی پسندوں کے خلاف پولیس کا بھاری کریک ڈاؤن، سکھوں میں تقسیم اور سکھ آبادی کی حمایت میں کمی سمیت متعدد وجوہات کی بناء پر تحریک اپنے مقصد تک پہنچنے میںکامیاب نہ ہو سکی۔مگر خالصتان کے حامی مختلف گروہ، سیاسی اور عسکریت پسند، علیحدگی پسند تحریک کے لیے پرعزم رہے۔ دنیا بھر میں ریفرنڈم ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت خالصتان کو کچلنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ پنجاب میں خالصتان نواز سکھ کارکنوں کے خلاف نریندر مودی حکومت کے کریک ڈاؤن کے دوران خالصتان ریفرنڈم کے سینکڑوں حامیوں کے ساتھ ان کے خاندان کے افراد کو پنجاب میں غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر سیکورٹی کریک ڈاؤن کے دوران پنجاب میں انٹرنیٹ مکمل طور پر بند ہے اورمودی حکومت سکھ کارکنوں سمیت خواتین اور بچوں کو بھی حراست میں لے رہی ہے۔ 1984 ء میں آپریشن بلیو اسٹار کے بعد سے، سکھوں کا واحد مقصد خالصتان کا قیام ہے۔ عالمی سطح پر خالصتان ریفرنڈم مہم پنجاب میں خالصتان ریفرنڈم کرانے کی سمت میں ایک قدم ہے۔لندن میں ہندوستانی ہائی کمیشن پر خالصتان پرچم لہرانے کی پیشرفت اس وقت سامنے آئی جب آسٹریلیا میں خالصتان ریفرنڈم کے دوسرے مرحلے میں 11,000 سکھوں نے ووٹ دیا۔آسٹریلیائی سکھوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر ہندوستانی سائبر سیکورٹی کے کرائے کے حملوں کی ایک بڑی لہر کے درمیان برسبین کنونشن اینڈ ایگزیبیشن سینٹر میں آسٹریلیا میں خالصتان ریفرنڈم ووٹنگ کو روکنے کے لئے ہندوستانی وزیر اعظم کی کوششوں پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔خالصتان کے حامی علیحدگی پسند گروپ، جس نے ریفرنڈم ووٹنگ کا اہتمام کیا، نے کہا کہ منصوبہ بند سائبرحملے میں ہندوستانی ریاست کے حمایت یافتہ ہیکرز ملوث ہیں۔برسبین میںخالصتان ریفرنڈم ووٹنگ سینٹر شہید بھائی ہرمیت سنگھ بھووال اور شہید بی بی بلجندر کور کو وقف کیا گیا ، جنہیں ہریانہ میں بھارتی پولیس فورسز نے 5 دسمبر 1992ء کو ان کے9ماہ کے بیٹے، پوتر سنگھ سمیت بم دھماکے میں قتل کر دیا ۔ خالصتانی تحریک کے ایک سرگرم لیڈر امرت پال سنگھ کے چچا اور ڈرائیور نے آزادی پسند لیڈر کو پکڑنے کے لئے جاری آپریشن کے درمیان پنجاب پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ ایس ایس پی جالندھر رورل سوارندیپ سنگھ نے ان کی پنجاب پولیس کے سامنے خودسپردگی کی تصدیق کر دی جنھوں نے پنجاب میں شاہ کوٹ کے قریب ایک گوردوارے کے قریب پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ وہ مرسڈیز میں امرت پال کے ساتھ ایک ساتھ فرار ہو گئے تھے۔پولیس نے امرت پال کے چچا ہرجیت سنگھ سے 32 بور کا پستول اور 1 لاکھ روپے بھی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔ خالصتان نواز رہنما امرت پال سنگھ کو پنجاب پولیس کی جانب سے گرفتار کرنے کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے لیکن پولیس اس دعوے کی تردید کررہی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہاہے کہ پولیس امرت پال سنگھ کو ”جعلی انکاؤنٹر” میں قتل کرنا چاہتی ہے۔سکھوئوں نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 21 کا حوالہ دیتے ہوئے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں ایک فوجداری رٹ پٹیشن دائر کر دی ہے جو زندگی کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر چہ مناسب عدالتی طریقہ کار پر عمل کئے بغیر پولیس کسی کو نہیں مار سکتی۔ مگر بھارتی فورسز کا آزادی پسندوں کو ماورائے عدالت فرضی جھڑپوں میں قتل کرنا ایک مشغلہ ہے۔رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ امرت پال سنگھ کی جان کو بھی خطرہ ہے اور اسے شاہکوٹ پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے، لیکن پولیس نے اسے مقررہ 24 گھنٹے کی مدت میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا۔سکھ آزادی پسند آسٹریلیا کے شہر برسبین میں خالصتان ریفرنڈم کو بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔جس نے بھارتی حکمرانوں کے اوسان خطا کر دیئے ہیں۔ تا ہم خالصتان ریفرنڈم ووٹنگ شروع ہونے کے 30 منٹ کے اندر ایک بڑا سائبر سیکیورٹی حملہ کیا گیا۔ سائبر حملہ شروع ہونے سے پورا الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کریش ہوگیا۔خالصتان کے حامی علیحدگی پسند گروپ سکھس فار جسٹس، جو ووٹنگ کے منتظمین تھے، نے کہا کہ یہ حملہ منصوبہ بند اور اچھی طرح سے مربوط تھا۔ ان کاکہنا تھا کہ سائبر حملے کے پیچھے بھارتی سرکاری ایجنسیوں کا ہاتھ تھا۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ پر حملہ کیا گیا ہو۔ پہلے بھی کوششیں کی گئی تھیں لیکن آئی ٹی ٹیم اور سیکورٹی ماہرین نے سسٹم کو بحال کر دیا۔اتوار کو، جیسے ہی سسٹم میں خلل پڑا، ہزاروں لوگ باہر قطاروں میں کھڑے ہو کر سسٹم کے دوبارہ کام شروع کرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ’’پنجاب کی ہندوستان سے علیحدگی” کے سوال پر محفوظ ووٹنگ کے لیے بنایا گیا آن لائن پورٹل نیچے چلا گیا اور سسٹم پر ایک پیغام پڑھا گیا‘‘آپ کا رابطہ نجی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے حملہ آور ویب سائٹ سے آپ کی معلومات چرانے کی کوشش کر رہے ہوں (مثال کے طور پر پاس ورڈ، پیغامات یا کارڈز)۔وسیع ہال کے اندر درجنوں پولیس اہلکار ووٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قطار میں کھڑے تھے۔ ہال کے باہر، 50 سے زیادہ پولیس اہلکار مقامی ہندوتوا گروپوں کی جانب سے رکاوٹوں کے خدشے کے بعد سڑکوں پر گشت کرتے رہے، جنہوں نے مرکز کے باہر مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔سائبر حملہ مغربی ممالک میں خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ کو روکنے کے لئے ہندوستانی حکومت کی جارحانہ مہم کا حصہ ہے جس میں ہزاروں سکھوں کو خالصتان کے قیام کے لیے اپنی حمایت ظاہر کرنے کے لیے نکلتے ہوئے دیکھا گیا ۔بیجنگ کی ایک بڑی سافٹ ویئر کمپنی Qihoo360 ٹیکنالوجی نے سائبر سیکیورٹی رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ ہندوستان میں سکھ مذہبی اور سیاسی جھکاؤ کے ساتھ خالصتان ریفرنڈم 2020 ء کی ویب سائٹس اور موبائل ایپس ہندوستانی سائبر کرائے کے گروپ کے حملے کی زد میں ہیں جسے APT C-35 کہا جاتا ہے۔APT C-35 بھارتی کرائے کے فوجیوں نے بھارت میں خالصتان کے حامی سکھوں کو نشانہ بنانے کے لئے ریفرنڈم 2020 سے متعلق کئی فشنگ ویب سائٹس اور موبائل ایپس لانچ کی ہیں۔بھارت میں سکھوں کو نشانہ بنانے کے لئے فشنگ اور اسپائی ویئر کی تقسیم کی مہم جاری ہے۔ ریفرنڈم کی ووٹنگ سے قبل برسبین میں کشیدگی بڑھ گئی ، کیونکہ درجنوں خالصتان نواز سکھوں نے برسبین میں ہندوستان کے اعزازی قونصل خانے کو زبردستی بند کر دیا اور آسٹریلوی حکومت نے پنجاب سمیت بعض ریاستوں میں ’’تشدد کا زیادہ خطرہ‘‘ کے زیر عنوان ٹریول ایڈوائزری جاری کی جس میں اپنے شہریوں کو بھارت کا سفر کرنے سے روک دیا گیا ۔ریفرنڈم ووٹنگ سے چند دن قبل، ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے آسٹریلوی ہم منصب انتھونی البانی کے ساتھ حملوں کے حالیہ مبینہ واقعات کو اٹھایا ۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے جنوری میں میلبورن میں خالصتان ریفرنڈم کے پہلے مرحلے میں 50,000 سے زیادہ سکھوں کے ووٹ ڈالنے کے بعد آسٹریلیائی حکومت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا۔ ووٹنگ سینٹر کے باہر سکھوں اور ہندو گروپوں کے درمیان سڑکوں پر جھڑپیں ہوئیں اور متعدد گرفتاریاں کی گئیں۔ آسٹریلیا میں سخت گیر ہندوتوا کے حامیوں نے سکھ کمیونٹی پر حملہ کیا ۔ بھارت سے پنجاب کی آزادی کی تحریک’’خالصتان‘‘کے لئے دنیا بھر میں ریفرنڈم ہو رہے ہیں۔بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے شہر منالی میں خالصتان کے حق میں نعرے لگائے گئے۔سینکڑوں سکھ یاتریوں نے، جن میں زیادہ تر موٹرسائیکلوں پر سوار تھے اور پنجاب سے تھے، نے ہماچل پردیش کے شہر مانیکرن میں ایک گوردوارے کا دورہ کیا۔سکھ یاتریوں نے منالی کے داخلی مقام پر ایک چوکی پر ٹیکس دینے سے انکار کر دیا اور شاہراہ بلاک کر کے احتجاج کیا۔ خالصتان کے حق میںاور بھارت کے خلاف نعرے لگائے۔گزشتہ سال مئی میں، دھرم شالہ میں ہماچل اسمبلی کمپلیکس کی دیواروں پر سکھ برادری کے ارکان نے خالصتانی حامی گرافٹی پینٹ کی۔مودی حکومت نے اس سے پہلے خوفزدہ ہو کرخالصتانی مواد سے منسلک چھ یوٹیوب چینلز کو بلاک کر دیا ۔ یہ چینلز پنجابی زبان میں مواد دکھا رہے تھے اور انہیں بلاک کر دیا گیا۔یہ کارروائی خالصتان کے ہمدرد امرت پال سنگھ کے حامیوں نے اپنے ایک ساتھی کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے تلواروں اور بندوقوں کے ساتھ اجنالہ میں ایک پولیس اسٹیشن پر دھاوا بولنے کے بعد کی۔دوسری طرف ہندوستانی وزیر خارجہ کے اعلیٰ سطحی دورہ آسٹریلیا کے بعدبرسبین میں ہندوستانی قونصل خانے میں ’’خالصتان‘‘ کے جھنڈے کے ساتھ ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی۔ویڈیو میں جی-20 کے وزرائے خارجہ پر زور دیا گیا کہ وہ نئی دہلی کی ’’بیوہ کالونی‘‘ کا دورہ کریں جس میں سینکڑوں سکھوں کی بیوگان موجود ہیں جنہیں نومبر 1984ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہندو بالادستی پسندوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا ۔بھارتی حکام خالصتان کے حامی سکھوں پر کینیڈا اور آسٹریلیا میں ہندو مندروں میں توڑ پھوڑ کا الزام لگاتے رہے ہیں، لیکن یہ الزام بے بنیاد ثابت ہوئے جو بغیر کسی ثبوت کے ہیں۔تاہم، کینیڈا اور آسٹریلیا میں، دائیں بازو کے ہندو افراد کیمرے پر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور انہوں نے حکام کو سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے اور خالصتان ریفرنڈم کے بینرز کو توڑ پھوڑ کرنے کی اطلاع دی ۔ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کا قتل عام کیا گیا، جہاں کانگریس نے نومبر 1984ء میں سکھوں کی نسل کشی کی، وہیں بی جے پی کے ہاتھ 1992 ء کی بابری مسجد سے لے کر 2002ء کے گجرات قتل عام میں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، جن میں مودی کی براہ راست اور فعال شمولیت ثابت ہوگئی ہے۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم میں بھی اس کا اعتراف کیا ۔دہلی کی بدنام زمانہ ’’بیوہ کالونی‘‘ میں 2000 سے زیادہ سکھ بیوائیںہیں جن کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ 1984 ء میں سکھ نسل کشی کے دوران ہندو ہجوم نے ان کے خاندان کے مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ناناوتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، سکھ خواتین اور مردوں پر قتل عام، ہنگامہ آرائی اور عصمت دری کو انجام دینے والے ڈیتھ اسکواڈ کی قیادت کانگریس لیڈر ’’بھگت‘‘ اور بی جے پی لیڈر رام جین کر رہے تھے، جو بی جے پی لیڈر اٹل بہاری واجپائی کے قریبی ساتھی تھے جو بعد میں وزیر اعظم بنے۔ آسٹریلیا، کینیڈا میں ہندو مندروں اور بھنڈرانولے کے بینرز کی توڑ پھوڑ کے معاملے سے لے کر ہندوستانی قونصل خانوں پر خالصتان کے جھنڈے لہرانے تک، خالصتان کا مسئلہ ہندوستان اور اس کے دیرینہ تجارتی شراکت داروں کے درمیان سفارتی تناؤ پیدا کر چکا ہے۔ بھا رت خالصتان ریفرنڈم کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ کر رہا ہے مگر آسٹریلیا، کینیڈا اور دیگر مغربی جمہوریتیں خالصتان ریفرنڈم کو پرامن آزادی اظہار کے طور پر اجازت دے رہی ہیں۔بھارت میں کینیڈا کی ڈپٹی ہائی کمشنر امانڈا سٹروہن نے بھی تسلیم کیاکہ کینیڈا میں خالصتان ریفرنڈم ووٹنگ کی آزادی اظہار رائے ہے۔ آج کشمیر سے پنجاب تک ، دہلی سے شمالی ریاستوں تک بھارت کے ظلم و جبر اور ناانصافیوں کے خلاف عوام تحریکیں چلا رہے ہیں۔ بھارتی مشینری بندوق کی نوک پر انہیں کچلنے اور دبانے کے حربے آزمانے میں مصروف ہے لیکن یہ تحریکیں جاری ہیں۔کشمیر میں خالصتان کے حق میں اور پنجاب اور دہلی میں کشمیر کی آزادی کے نعرے بلند ہو رہے ہیں جو بھارت کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہیں۔ اگر یہ تحریکیں منظم اور مربوط طور پر متحرک رہیں تو بھارت کے تمام منصوبے ناکام ہو جائیں گے۔