جمعرات‬‮   25   اپریل‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر ہندو آباد کاری اور یوم جمہوریہ

       
مناظر: 746 | 26 Jan 2023  

تحریر: عبدالواجدخان

کشمیری ہر سال 26جنوری کو بھارت کا یوم جمہوریہ یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں امسال بھی کشمیریوں نے اس دن کی مناسبت سے بھارت خلاف عالمی برادری کو پیغام دیا ہے کہ دہشتگرد جارح ملک بھارت جس نے 75 سال سے کشمیریوں پر ظلم و بربریت اور مسلمانوں کا جینا حرام کررکھاہے ایسے ملک کی نام نہاد جمہوریت کو نہیں مانتے بھارت کایوم جمہوریہ ہمارے لئے یوم سیاہ ہے، عالمی برادری صرف گذشتہ سالوں کی بھارتی انتہاپسندی،مسلم کش پالیسی،مظلوموں پر ظلم و بربریت ہی دیکھ لے تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،بھارت نے مقبوضہ وادی میں چارسال سے لاک ڈاون کررکھاہے جس سے پورا نظام زندگی مفلوج ہو کررہ گیاہے کشمیریوں کی املاک قبضہ کرلیں، انہیں وہاں سے بے دخل کرکے اپنے گھر سے بھ گھر کیا جارہا ہے لاکھوں غیر ریاستی ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر لاکر بسایا جارہا ہے ، نریندر مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی جہاں بھارتی مسلمانوں پر روا رکھے مظالم کو بڑھاوا دیا وہاں اس سفاک ظالم متعصب انتہا پسند ہندو حکمران نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں فلسطینی علاقوں میں جبری طور پر اسرائیلی آبادکاری کے انداز میں ریاست جموں و کشمیر کے معاشرتی طبقات کی شناخت اور آبادی کی ہیئت تبدیلی کے منصوبے کو عملی شکل دینے کا اعلان کیا اور اس مقصد کے لئے مودی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو اپنے زیر قبضہ ریاست جموں کشمیر کی خصوصی نیم خود مختار شناخت بھی ملکی دستور میں ترمیم کر کے ختم کر دی تھی۔ یہ سارا منصوبہ ریاست کی خودمختاری چھیننے کے ساتھہ اسکی ڈیمو گرافی بدلنے کے لئے تھا اس ترمیم سے مقبوضہ کشمیر کے جھنڈے اور علیحدہ آئین سمیت دوسرے حقوق بھی سلب ہوگئے۔دنیا جانتی ہے کہ جموں و کشمیر مسلم اکثریتی آبادی والا علاقہ ہے۔ اس میں 76 فیصد مسلمان ہیں تاہم وادی یعنی کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب سو فیصد ہے یہ اعداد و شمار خود بھارتی اداروں کے ہیں مگر گجرات کے قصائی نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتہا پسند اساسی جماعت راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) 1947 سے ہی کشمیر کے زمینی حقائق تبدیل کرنے پر گامزن ہے نومبر 1947 میں اڑھائی لاکھ جموں کے مسلمانوں کا قتل عام بھی اسی جماعت کے دہشتگردوں نے بھارتی فوج کی سرپرستی اور مدد سے کیا تھا 5 اگست 2019 کے مکروہ منصوبے کے بعد آر ایس ایس کی قیادت نے برملا کہا کہ ریاست کو ہندو سٹیٹ بنانے کا دیرینہ پلان اب تکمیل کے قریب ہے۔ جموں و کشمیر میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے قوانین ڈوگرہ رجیم میں سن 1927 میں لاگو ہوئے تھے۔ انہی قوانین کے تحت مقامی آبادی کو جائیداد کی خرید و فروخت، حکومتی محکموں میں ملازمت کے مواقع، یونیورسٹی میں داخلے اور بلدیاتی انتخابات میں حق رائے دہی جیسے حقوق حاصل ہیں اور کوئی غیر ریاستی شخص ریاست جموں و کشمیر کا کسی صورت باشندہ نہیں بن سکتا اس مقصد کے لئے ڈوگرہ نے باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ یعنی اسٹیٹ سبجیکٹ متعارف کیا تھا اور پشتنی باشندہ ہی یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتا ہے تاہم بھارت نے اب یہ قوانین یکطرفہ طور پر ختم کردیئے ہیں اب نئی بھارتی قانون سازی سے بھارت کے کسی بھی حصے سے کوئی بھی شخص کشمیری علاقے کا رہائشی ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پچھلے 7 سال سے کشمیر ہی میں مختلف مقامات پر رہ رہے ہیں جن میں زیادہ تر بھارتی فوجی،خفیہ ایجنسی ” را ” اور تحقیقاتی ایجنسی “این آئی اے” کے ہندو افیسران و اہلکار ان کے بیوی بچے بھی شامل ہیں ، بھارت نے اسرائیلی طرز پر ہندووں کو کشمیر میں بسںانے کی غرض سے ہر حربہ استعمال کیا ہے اور یہ سب جعلی اور جبری قوانین ریاستی اسمبلی اور کٹھ پتلی حکومت سے بالا بالا ہی لاگو ہیں درحقیقت ساڑھے 3 سال سے مقبوضہ کشمیر میں کسی اسمبلی اور حکوخت کا وجود ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ اب تک بھارتی نیتاو کے حکم پر ریاستی انتظامیہ نے 2019 تا دسمبر 2022تک تقریبا 53 لاکھ غیر ریاستیوں کو ڈومیسائل جاری کئے ہیں حتی کہ کشمیر میں دیہاڑی پر کام کرنے والے تقریباً 1.75 ملین مزدور جن کی شہریت بھارت اور قلیل تعداد بنگلہ دیش کی ہے نے بھی ڈومیسائل حاصل کر لئے ہیں 2019 میں سب سے پہلا ڈومیسائل ریاست بہار کے ایک سینیئر بیوروکریٹ نوین کمار چوہدری کو جاری کیا گیا تھا جو کئی برسوں سے کشمیر ہی میں تعینات رہا ۔ ہندوستان کی جانب سے اس غیر فطری آبادکاری پر بھارت سمیت دنیا بھر میں مذمت کی جارہی ہے 2019 میں جب بھارتی سرکار نے اس مکروہ منصوبے کو شروع کیا تو امریکہ میں تعینات بھارتی قونصل جنرل سندیپ چکرورتی نے نیویارک میں ایک تقریب میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو اسرائیل کی طرز کا منصوبہ بناتے ہوئے وہاں زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کو آباد کرنا ہوگا۔سندیپ چکرورتی کے اس بیان کے بعد بھارت سمیت دنیا بھر میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کشمیری پنڈتوں نے بھارتی سفارت کار کے بیان پرسخت ردعمل دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا بھارتی سفارت کا رکے بیان پر کشمیری پنڈتوں کی تنظیم کے سربراہ سنجے ٹکو کا کہنا ہے کہ اسرائیل طرز پرمقبوضہ کشمیر میں آباد کاری کی بات مضحکہ خیز ہے اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل 370 کے نفاذ کے بعد یہ جو چاہیں یہاں کرسکتے ہیں لیکن ہم انہیں اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسی طرح سکھوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی شدید احتجاج کیابھارت کی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ نیا قانون ‘یونین ٹریٹری آف جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن (ایڈاپٹیشن آف سینٹرل لاز) تھرڈ آرڈر 2020’ کا نفاذ فوری طور پر ہوگا۔ اس قانون سے قبل مقبوضہ جموں و کشمیر کے مستقل رہائشی ہی خطے میں اراضی خرید سکتے تھے لیکن اب اس قانون کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ڈومیسائل ملنے کے بعدبھارت کے ہندوئوںکو اختیارمل گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں املاک خرید کرسکیں، کاروبار کریں یا سرکاری ملازمت حاصل کرسکیں۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور وہ فوجی جومقبوضہ کشمیر میں رہائش کے خواہشمند ہوں انہیں رہائش کیلئے کم قیمت پر زمین سرکار فراہم کرے گی جبکہ گھر انہیں خود تعمیر کرناہوگا۔ اس مقصد کیلئے بینک انہیں بہت کم مارک اپ کے ساتھ آسان اقساط پر قرضہ بھی فراہم کریں گے۔ انہیں غیر ممنوعہ بور کے خود کار ہتھیاررکھنے کیلئے سرکار لائسنس جاری کریگی تاہم ممنوعہ بور کے اسلحہ کیلئے انہیں خصوصی اجازت نامہ درکار ہوگا جو بھارتی وزارت دفاع کے این او سی سے مشروط ہوگا ۔ کاروبار کے خواہشمند بھارتی ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر کے بینک کم مارک اپ کے ساتھ قرض دینے کے پابند ہونگے۔ نریندر مودی کی فسطائی حکومت نے مختلف حیلے بہانوں سے جموں و کشمیر میں گزشتہ تین برسوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے نام پر 46 ہزار کنال اراضی پر قبضہ کیا، حکومت نے خالصہ سرکار ، کاہچرائی اور شاملات سمیت 2359.45 ہیکٹر (46,000 کنال) اراضی کنٹرول لائن پر باڑ لگانے ، سرحدی چوکیوں اور صنعتوں کی تعمیر کے نام پر ہتھیا لی دو ہفتے قبل بھارتی فوج نے کشمیریوں کو اپنی اراضی 31 جنوری 2023 سے پہلے حکومت کے حوالے کرنے یا پھر قانونی کارروائی کے لیے تیار رہنے کے دھمکی آمیز نوٹس جاری کئے گئے جبکہ بھارتی ٹی وی کے مطابق گزشتہ جمعرات کو بارہ مولا کے مختلف مقامات پر بھی انتظامیہ نے آپریشن میں سینکڑوں کنال اراضی خالی کروالی ۔ کپواڑہ، بارہ مولا اور شوپیاں اضلاع میں بھی 300 کنال سے زائد اراضی سے مکینوں کو بے دخل کیا گیا ۔ اب تک کشمیریوں سے ہزاروں کنال اراضی چھینی جا چکی اور کئی گھروں کو مسمار کیا جا چکا ہے ۔ ادھر زمین سے بیدخلی کے خلاف کشمیریوں نے مزاحمت تیز کردی اور مختلف مقامات پر 4 روز سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر سابق وزیر اعلٰی محبوبہ مفتی نے سری نگر میں گفتگو کرتے کہا کہ کشمیر میں 2019 کے بعد بہت سے کالے قوانین لائے گئے جو لوگوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں دہلی سرکار کشمیریوں سے زمینیں چھینے کے بعد ان پر حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجیوں کے لیے رہائشی کالونیاں بنائے گی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے اس واقعہ پر بیان میں کہا کہ روشنی سکیم کے تحت کشمیریوں کو دی گئی زمینیں ان سے واپس لینا عوام کے ساتھ دھوکا دہی کے مترادف ہوگا۔ فلسطینی امور کے ماہر اور استنبول میں قائم اسلام اور عالمی امور کے مرکز کے ڈائریکٹر سمیع العرین (Al-Arian)نے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ کشمیر کو نوآبادیاتی بنانے اور اسے نئے اور پرانے نوآبادیات کے ساتھ آباد کرنے کی مذموم کوشش ہے تاکہ کشمیری عوام کو اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کردیاجائے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کی طرف سے حال ہی میں نافذ کئے گئے نسلی امتیاز پر مبنی غیر منصفانہ قوانین اسرائیلی کے نسل پرست قوانین سے مشابہ ہیں جن پر اسرائیل گزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطین میں عمل پیرا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈومیسائل قانون میں تبدیلیوں سے ہزاروں غیر مقیم کشمیری مسلمانوں کے علاوہ1947سے پاکستان اور دیگر مقامات سے بے گھر ہونے والے لاکھوں مسلمان بھی شہریت سے محروم ہو جائیں گے۔پنسلوانیا امریکہ کے Lafayetteکالج کی تاریخ کی پروفیسرڈاکٹر حفصہ کنجوال نے کہا ہے کہ یہ صرف ایک آغاز ہے اور اس قانون کے ذریعے مزید ڈومیسائل حاصل کرنے والے غیر کشمیریوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو گا۔