ہفتہ‬‮   20   اپریل‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

کشمیرمیں اسرائیل طرز کے بھارتی اقدامات؟

       
مناظر: 368 | 26 Jan 2023  

تحریر: عمرفاروق /آگہی

بھارت ایک ایسے وقت میں یوم جمہوریہ بنارہاہے کہ جمہوریت کابھی سر شرم سے جھکاہواہے خاص کرکے کشمیراوراقلیتوں کے حوالے سے بھارت کامکروہ کردارکسی طورپر بھی جمہوریت کی عکاسی نہیں کرتا، مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی زندگی کاتو ہر پہلو ہی بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کا ہدف بنا ہوا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں بھارتی اقدامات کا مقصد کشمیر کے آبادیاتی منظرنامے میں تبدیلیاں کرکے وہاں کی مسلمان آبادی کو بے اختیار کرنا اور منظم انداز میں کشمیری ثقافت، زبان اور مذہبی شناخت کو ختم کرنا ہے۔مودی نے کشمیرہڑپ کرنے کے لیے اسرائیل کی پیروی کی ہے یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت نے پانچ اگست 2019 کومقبوضہ کشمیر پرجوشب خون ماراتھا اس کے لیے اس نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غیر مقامی یہودیوں کی آبادکاری کیلئے اسرائیل میں تیارکردہ قوانین سے استفادہ کیاتھا ۔ یہ قوانین ماضی میں “Settler Colonial Project”کے نام سے امریکہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بروئے کار لائے جاچکے تھے۔اوراسی کی طرف 18 مئی 1993 کو اسرائیل وزیر خارجہ، شمعون پیریزنے بھارت کے دورے کے دوران اشارہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ:بھارت کشمیر میں آبادکاری سے بالکل خوفزدہ نہ ہو- صرف آبادکاری کے تناسب میں تبدیلی سے بھارت مقبوضہ کشمیر حاصل کر سکتا ہے-اسی تناظرمیںیکم اپریل 2020کو بھارت نے سب سے پہلے ڈومیسائل لا کی منظوری دی جس کی رو سے غیر کشمیری کو کشمیر ی بننے کے لئے قانون تبدیل کردیاگیااس حوالے سے مودی سرکارنے مقبوضہ کشمیرکے متعلق 29قوانین منسوخ کیے جبکہ 109قوانین میں ترمیم کی ، سب سے پہلا ڈومیسائل ریاست بہار کے ایک سرکاری افسر نوین کمار چوہدری کو جاری کیا گیا جو کئی برسوں سے کشمیر ہی میں تعینات تھا۔ قانون کی تبدیلی کے بعدپہلے دوماہ میں 30ہزار بھارتی شہریوں کوغیرقانونی طور پر ریاست جموں وکشمیر کا ڈومیسائل اور باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ جاری کیاگیا۔ حالانکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927سے 1932کے درمیان باشندہ ریاست سرٹیفکیٹ کے قوانین بنائے تھے جس کے تحت کوئی بھی غیرریاستی جموں وکشمیر کاباشندہ نہیں بن سکتا۔ اسی قانون کی رو سے جموں وکشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتاحتی کہ یہاں نوکری تک حاصل نہیں کرسکتااور نہ کشمیر میں آزادانہ طور پر سرمایہ کاری کرسکتا ہے ۔مگربھارتی حکومت ان تمام قوانین کوبالائے طاق رکھتے ہوئے اب تک 53 لاکھ سے زائدبھارتیوں کویہ سرٹیفکیٹ جاری کر چکی ہے ۔ڈومیسائل جاری کرنے کے بعد ان افرادکوووٹ کابھی حق دے دیاگیاہے اوردس لاکھ ہندووں کوفوری طورپرکشمیریوں کی نئی ووٹرلسٹوں میں شامل کردیاگیاہے جبکہ 15لاکھ ہندووں کومزیدووٹرلسٹوں میں شامل کرنے کی تیاریاں مکمل ہیں، حلقہ بندیوں کے نام پرمسلم اکثریتی حلقوں کواقلیت میں تبدیل کردیاگیاہے ۔رائٹرکی ایک رپورٹ کے مطابق اگلے انتخابات میں یہ تمام نئے ووٹرزبے جی پی کوووٹ دیں گے۔مودی سرکارنے ایک اورواردات کرتے ہوئے جموں کے لیے چھ نشستوں کااضافہ کردیاہے جس کے بعدجموںکی نمائندگی 43 ہو گئی جب کہ مسلم اکثریتی علاقے وادی میں صرف ایک نشست کااضافہ کیاگیاہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مقبوضہ کشمیر پرمکمل کنٹرول حاصل کرنے کے منصوبے پرعمل پیراہے، جہاںماضی میں تقریبا مسلمان وزرائے اعلی ہی حکومت کرتے رہے ہیں۔مگراب بی جے پی پہلا ہندو وزیراعلی لانے کاتہیہ کرچکی ہے ۔ مودی حکومت نے مقامی لوگوں کی املاک پر قبضے کے لیے ایسے قوانین متعارف کروائے ہیں کہ جن کے ذریعے مقامی لوگوں سے زمینیں لے کر غیر مقامی افراد کو دی جارہی ہیںجس طرح اسرائیلی آباد کار ان سے زمین خرید کر فلسطینی سرزمین میں منتقل ہوگئے۔اسی طرح اب مودی سرکار تیزی سے اسرائیل کے نقشے قدم پر گامزن ہے.27اکتوبر2020کوبھارت کی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ،،یونین ٹریٹری آف جموں وکشمیرآرگنائزیشن (ایڈاپٹیشن آف سینٹرل لاز)تھرڈآرڈر2020کانفاذفوری عمل میں لایاگیااس کے علاوہ بھارتی حکومت کی جانب سے ،،مقبوضہ جموں وکشمیرڈویلپمنٹ ایکٹ ،،متعارف کروایاگیاجس کے مطابق بھارتی فوج کسی بھی مقام کوسٹریٹیجک علاقہ قراردے کراس کواپنے کنٹرول میں لے سکتی ہے اس قانون کے بعدپہلے مرحلے میں جموں کے تقریبا27مقامات پربھارت کی جانب سے سیکورٹی اداروں کے لیے ہزاروں ایکڑاراضی مختص کی گئی اوراسے حساس قراردے کرکشمیریوں کواس اراضی کی جانب جانے سے منع کردیاگیاہے ۔متنازع قانون کے آنے کے بعد پہلے ایک ماہ میں1 لاکھ سے زائدبھارتیوں نے مقبوضہ کشمیرمیں اراضی خریدی۔بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق دہلی کی حکومت مقبوضہ کشمیر میں ہندوں کو الگ بستی فراہم کرے گی۔ اس سے قبل ہندوستان غیر کشمیری سرمایہ کاروں کے لئے 60000کنال اراضی پہلے ہی فراہم کرچکی ہے۔ ایک ہندو مندر کو بھی 1000 کنال اراضی فراہم کی گئی ہے۔ جموں میں مسلمانوں سے 4 ہزار کنال سے زائد اراضی ہتھیائی گئی ہے۔جوکشمیری زمینیں دینے میں لیت ولعل کررہے ہیں انہیں عدالتوں کے ذریعے بے گھرکیاجارہاہے، حال ہی میں جموں کی بستی بشیر گجر کے 200 سے زائد مکینوں کو بذریعہ نوٹس مطلع کیا گیا ہے کہ گھر خالی نہ کرنے کی صورت میں گرا دیے جائیں گے۔ قابض بھارتی حکام نے حال ہی میں صرف جماعت اسلامی کی 90 کروڑ روپے مالیت کی 11 جائیدادیں ضبط کی ہیں ۔اس کے علاوہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور وہ فوجی جومقبوضہ کشمیر میں رہائش کے خواہشمند ہوں انہیں رہائش کیلئے کم قیمت پر زمین فراہم کی جارہی ہے جبکہ گھروں کی تعمیر کیلئے بینک انہیں بہت کم مارک اپ کے ساتھ آسان اقساط پر قرضہ بھی دے رہاہے۔ انہیں غیر ممنوعہ بور کے خود کار ہتھیاررکھنے کیلئے سرکار لائسنس بھی جاری کیے جارہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں ہندوں کوآباد کرنے کے نام پرآرایس ایس کے دہشت گردوں کے لیے کیمپوں کی تعمیربھی زوروشورسے جاری ہے ۔گزشتہ سال بی جے پی حکام نے جموں و کشمیر وقف بورڈ اور اس کی تمام جائیدادوں پر قبضہ کرلیاتھا ۔ یوں مقبوضہ وادی میں مزارات سمیت مسلمانوں کے تمام اہم مذہبی مقامات کا کنٹرول حاصل کررہی ہے۔ مذہبی رہنمائوں اور اسلامی اسکالروں کو مسلسل پابندسلاسل کیاجارہاہے اور پورے مقبوضہ کشمیر میں مساجد میں نمازوں پرمختلف قسم کی پابندیاں عائدکررکھی ہیں ۔کشمیری ثقافت پر ہونے والے بی جے پی کے حملوں میں اردو کی حیثیت کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔ 100 سال سے زیادہ عرصے تک اردو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان تھی لیکن 2020 میں اردو کی خصوصی حیثیت کو قانون سازی کے ذریعے ختم کردیا گیا اب اردو اور انگریزی کے علاوہ ہندی، کشمیری اور ڈوگری کوبھی سرکاری زبانوں کادرجہ دے دیاگیاہے۔ اب کشمیری زبان کے رسم الخط کو نستعلیق سے دیوناگری رسم الخط میں تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔نومبر 2019 میں امریکا میں تعینات ایک بھارتی سفارت کار نے، کشمیری ہندووں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کھل کر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ کشمیری ثقافت اور بھارتی ثقافت اصل میں ایک ہندو ثقافت ہے اور ساتھ نوآبادیاتی عمل کی تحسین کرتے ہوئے، دریاے اردن کے مغربی کنارے بستیوں کے اسرائیلی ماڈل کی حمایت کی تھی۔بھارت کے حالیہ اقدامات نہ صرف چوتھی جنیوا کنویشن (1948) کے خلاف ہیں بلکہ انسانی حقوق کے بھی مغایرہیں ،مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی آبادکاری نے نہ صرف استصوابِ رائے کی اصل روح بلکہ اقوام متحدہ کے ترک نو آبادیات و انسانی حقوق کے چارٹر کو رد کر دیا ہے جو کہ کشمیر کو بھارتی نو آبادیاتی مذموم عزائم کی طرف لے کر جا رہا رہے-اس تناظر میں امریکا کی سیراکوز یونیورسٹی کے شعبہ انتھروپالوجی کی پروفیسر مونا بھان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگوکرتے ہوئے کہاہے کہ نریندر مودی بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کی کوشش میں ہیں۔ کشمیر میں اب ہندوں کی آبادکاری کے ایک نوآبادیاتی منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔