جمعہ‬‮   29   مارچ‬‮   2024
پاکستان سے رشتہ کیا     لا الہ الا الله
پاکستان سے رشتہ کیا                    لا الہ الا الله

عرب ممالک، مسئلہ کشمیر اور ہماری خارجہ پالیسی

       
مناظر: 501 | 21 Jan 2023  

تحریر: سعید الرحمن صدیقی

ٹھیک چار سال پہلے جب سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان بھارت کے پہلے دورے پر آئے تھے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پروٹوکول کو نظرانداز کرتے ہوئے خود ائیر پورٹ پہنچے تھے اور گلے مل کر ان کا پُرتپاک استقبال کیا تھا۔محمد بن سلمان کا یہ دورہ محض رسمی نہیں تھا بلکہ اس کے ذریعے سٹریٹجک اور سفارتی حلقوں میں کئی پیغامات جا رہے تھے۔ محمد بن سلمان سعودی عرب کے وزیر دفاع بھی ہیں۔ اکتوبر 2019 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران بھارت اور سعودی عرب کے درمیان ایک ’سٹریٹجک کوئوپریشن کونسل‘ بھی قائم کی گئی تھی۔حالانکہ سعودی عرب اور بھارت کے تعلقات بنیادی طور پر تیل کے ارد گرد مرکوز رہے ہیں لیکن گزشتہ چند سال میں یہ تعلقات اب تیل کے علاوہ سٹریٹجک تعاون پر آ گئے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کے دورے کے دوران وہاں کے انگریزی اخبار ’عرب نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’سعودی عرب اور انڈیا کو سکیورٹی کے حوالے سے ایک جیسے خدشات ہیں۔‘ دفاعی اداروں کے قیام کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹجک تعاون پر بھی زور دیا۔دسمبر 2020 میں انڈین فوجی سربراہ جنرل ایم ایم نروانے سعودی عرب پہنچے تھے۔ کسی بھی انڈین فوجی سربراہ کا سعودی عرب کا یہ پہلا دورہ تھا۔پچھلے چار سال میں بھارت اور سعودی عرب کے درمیان دفاع کے حوالے سے بہت کچھ ہوا ہے جیسے انٹیلیجنس معلومات اور سائبر سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کی معلومات کا تبادلہ شامل تھا بھارت عرب تعلقات میں نئی تبدیلیوں کے باعث جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے کا اعلان کیا تو سعودی عرب بھارت کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ایسے کئی معاملے سامنے آئے ہیں جب سعودی عرب نے واضح کیا کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا بھارت کے تعلقات نہ صرف سعودی عرب بلکہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی کافی بدل چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت متحدہ عرب امارات بھی مقبوضہ کشمیر کے خطہ میں کئی پروجیکٹس میں پیسہ لگا رہا ہے۔ان سارے حالات میں پاکستان اور کشمیریوں کو شدید تشویش لا حق ہے کہ یہ وہی بھارت ہے جہاں مسلمانوں کے اذلی دشمن نریندر مودی کے ہاتھوں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے بھارت میں اس وقت نریندر مودی نے انتہا پسندانہ ہندواتا مائینڈ سیٹ کو فروغ دے رکھا ہے ان حالات میں پاکستان نے بھی عرب دنیا کو بھارت کا حقیقی چہرہ دکھانے پر سفارتی محاذ گرم کر دیا ہے او آئی سی کے فورم پر کشمیر کی موثر آواز اٹھائی جا رہی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کی دعوت پر او آئی سی کا وفد آذاد کشمیر بھی آیا اور کھل کر بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت بھی کی وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا عرب میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کا دورہ سب سے کامیاب دورہ ثابت ہوا، سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ منفرد تاریخی تعلقات ہیں، یو اے ای پاکستانیوں کا دوسرا وطن کے مانند ہے اور یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زاید آل نہیان پاکستان دوست ہیں، وہ پاکستان کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں اور پاکستان کی مدد میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتے۔وزیراعظم کا کہنا تھاکہ پاکستان اور خلیجی ممالک کے مفادات مشترکہ ہیں اور ہمارے تعلقات تحائف سے بڑھ کر ہیں، ہم تحائف سے زیادہ مضبوط تعاون کو فروغ دینے پر یقین رکھتے ہیں، ہمارا مقصد سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانا ہے، ہم قابل بھروسہ دوستوں کی جانب مدد کے لیے ہاتھ بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ دوست بروقت مدد نہ کرتے تو موجودہ صورتحال سے نمٹنا ناممکن ہوتا، خلیجی ممالک کی مدد سے پاکستان کو درپیش مسائل میں کمی آئی ہے لیکن ہم امداد سرمایہ کاری کی شکل میں چاہتے ہیں۔وزیراعظم نے بھارتی ہم منصب کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کو سنجیدہ اور مثبت مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں، پاکستان اور بھارت کو فضول کی کشمکش اور مخاصمت سے نکلنا ہوگا اور دونوں ملکوں کو عوام کی ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا، اگر بھارت اپنا رویہ تبدیل کرکے مذاکرات کرے تو ہمیں تیار پائے گا، دونوں ممالک کے پاس معدنی ذخائر نہیں ہیں، ہمارا مضبوط اثاثہ افرادی قوت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت نے 3 جنگیں لڑ کر بھوک بیروزگاری کے سوا کچھ نہیں پایا، عوام افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے، اب ہمیں یہ روکنا ہوگا لہٰذا دونوں ملکوں کو اختلافات دور کرنے کے لیے سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا، کشمیر سمیت تمام متنازع مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کرنا ناگزیر ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی روکنا ہوگی، بھارت نے 2019 کے متنازع آرٹیکل سےکشمیرکی اُصولی حیثیت کوپامال کیاہے، بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے سب کے سامنے ہے۔قارئین مقبوضہ کشمیر ایک متنازعہ عکاقہ ہے جہاں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے صنعت کارروں کا وفد ایسے وقت کشمیر میں سرمایہ کاری کے امکانات تلاش کر رہا تھا جب پاکستان میں مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اجلاس ہو رہا تھا جس میں مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ شرکت کر رہے تھے جبکہ چین کے وزیر خارجہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی گورنر انتظامیہ اور متحدہ عرب امارات کی کئی کمپنیوں کے درمیان 3000 کروڑ روپے مالیت کے صنعتی منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لیے معاہدہے طے پائے تھے۔ ان کمپنیوں میں عمار، لُولُو، ماتو انویسٹمنٹس، المایا گروپ، جی ایل امپلائمنٹ بروکریج، سینچری فائنانشل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق عالمی شہرت یافتہ نُون ای کامرس شامل ہیں۔ سعودی عرب کی ’الفا سکائی‘ کے سی ای او ایمن عبدالرحمٰن ایس الہلائی بھی وفد میں شامل ہیں۔کمپنیوں کی طرف سے سرمایہ کاری کے لیے دو ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے کی زمین مختص کی گئی ہے اور یہ حجم 6000 ایکڑ تک پہنچانے کا منصوبہ ہے۔بھارتی حکومت نے پہلے ہی سرینگر اور دبئی کے درمیان سالہا سال براہ راست فضائی رابطہ شروع کیا ہے جبکہ سعودی عرب اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان براہ راست پروازوں کا بھی عنقریب اعلان متوقع ہےکشمیر کی صورت حال کے حوالے سے خلیج کے تقریبا سبھی عرب ممالک خاموش ہیں۔ اس خاموشی کی سب سے بڑی وجہ ان مسلمان ملکوں کے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط ہیں۔ بھارت جزیرہ نما عرب کا انتہائی اہم اقتصادی پارٹنر ہے اور ان ممالک کے ساتھ سالانہ ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت کرتا ہے۔علاقائی حوالے سے سب سے اہم اسلامی ملک سعودی عرب نے صرف اتنا کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو تحمل سے حل کیا جائے اور وہ اس حوالے سے تشویش کا شکار ہے۔ جبکہ کویت، قطر، بحرین اور عمان جیسے دیگر خلیجی ممالک نے ابھی تک کوئی ایک بھی بیان جاری نہیں کیا۔متحدہ عرب امارات میں بھارت کی سرمایہ کاری تقریبا 55 ارب ڈالر ہے اور دبئی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری بھی بھارتی شہریوں کی ہی ہے۔ دبئی کا عالمی پورٹ آپریٹر ادارہ ڈی پی ورلڈ مقبوضہ کشمیر میں لاجسٹک حب کا قیام بھی چاہتا ہے۔متحدہ عرب امارات نے تو ان ممالک سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے بظاہر بھارت کا ساتھ دیا۔ متحدہ عرب امارات کے مطابق کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی بھارت کا اندرونی معاملہ ہےترکی کی بھارت کے ساتھ سالانہ تجارت کا حجم سات ارب ڈالر ہے لیکن اس نے اپنا سارا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالا ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان ہونے والی گفتگو میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی کھل کر حمایت کی گئی ہے۔ان سارے حالات میں پاکستان کی کوشش ہے کہ عرب ممالک کو پاک بھارت مذاکرات برائے مسلئہ کشمیر کردار کو یقینی بنایا جا سکے ان حالات میں کشمیری عوام کو توقع ہے کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف مظالم ختم کروانے میں عالم عرب اپنا مثبت کردار ضرور ادا کرے گا

(بشکریہ اوصاف)